پرینکا گاندھی میں اندرا گاندھی کا عکس!

   چودھری آفتاب احمد

  پرینکا گاندھی واڈرا نے کانگریس جنرل سکریٹری کا عہدہ سنبھال لیا ہے،انہیں مشرقی یوپی کا پارٹی انچارج بنایا گیا ہے،پارٹی انچارج بننے کے بعد انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے لکھنو ¿ میں روڈ شو بھی کیا،یعنی انہوں نے مشرقی یوپی میں اپنی آمد بھی درج کرادی ہے ،یہ کام ان کے لئے کوئی نیا نہیں ہے،انہوں نے اپنی ماں سونیا گاندھی کے انتخابی حلقہ رائے بریلی اور بھائی راہل گاندھی کے حلقہ انتخاب امیٹھی میںانتخابی مہم میں حصہ لیا ہے، 80سیٹوں والی ریاست یوپی پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ ممبران کامیاب بنا کر بھیجتی رہی ہے،اس لحاظ سے بھی یہ ریاست دوسری ریاستوں کے مقابلہ کانگریس کے لئے اہم ہے،

 پرینکا گاندھی کا تعلق بیشک ملک کے سب سے بڑے سیاسی گھرانہ سے ہے،پھر بھی کانگریس پارٹی کے لئے یہ داؤ کسی خطرہ سے کم نہیں ہے، سوال اٹھتا ہے، آیا کانگریس کی پرینکا مجبوری ہے، یا پرینکا ڈوبتی کانگریس کی نا خدا ہے، پرینکا کے پاس محض تین ماہ کا قلیل سا وقت ہے، اس تین ماہ کے وقت میں پرینکا کو کانگریس کے لئے زمین تیار کرنی ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جبکہ یو پی میں کانگریس کے پاس اپنا کوئی ووٹ بینک نہیں ہے، ذات پات میں تقسیم یو پی کا ووٹر کیا پرینکا کی طرف مائل ہو پائے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا حل کرنا آسان نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ پرینکا کی اپنی شناخت ہے۔

   یوپی میں اس وقت اعلیٰ ذات کا ہندوں ووٹ بی جے پی کے پاس ہے، دلت ووٹ بی ایس پی کے پاس ہے، اور مسلم ووٹ سماجوادی پارٹی کے پاس ہے، پسماندہ ووٹ منقسم ہے،ایسے میں پرینکا گاندھی کوکانگریس کی ڈوبتی ناؤ کو پار لگانا آسان نہیں ہے، اب چونکہ ایس پی ۔بی ایس پی کا اتحاد ہو گیا ہے، امید کی جا رہی تھی کہ یہ اتحاد بی جے پی کو بھاری نقصان پہنچائے گا، مگر پرینکا گاندھی کے میدان میں آنے سے یوپی کے سیاسی حالات بدل گئے ہیں، اب سیکولر ووٹوں کی تقسیم سامنے نظر آرہی ہے، اگر کانگریس بھی اس اتحاد کا حصہ بن جائے، تو اس میں کوئی شک نہیں ہے، کہ یو پی میں بی جے پی چار پانچ سیٹوں پر سمٹ جائے، ایس پی – بی – ایس – پی اتحاد فی الحال کانگریس کو اس لئے ساتھ لینے کو تیار نہیں ہے، کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ یوپی میں کانگریس کے پاس اب کوئی ووٹ بینک نہیں ہے،لیکن پرینکا گاندھی کے آنے سے یو پی کے سیاسی حالات ضرور بدلیں گے، ممکن ہے کہ یہ اتحاد کانگریس کو اپنا حصہ بنانے کو تیار ہو جائے، اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا، تو ایس پی – بی ایس پی اتحاد کو نقصان اور بی جے پی کو عام پارلیمانی انتخابات میں فائدہ ہوگا۔

 پرینکا گاندھی میں ان کی دادی اندرا گاندھی کا عکس نظر آتا ہے، بار بار قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں کہ پرینکا گاندھی عنقریب ہی سیاست میں داخل ہونے والی ہیں، مگر انہوں نے خود کو سیاست سے دور ہی رکھا، بالآخر کانگریس کو بھی اب یہ احساس ہونے لگا تھا کہ انھیں مودی اور شاہ سے مقابلہ کے لئے پرینکا گاندھی کو سیاست میں لانا ہی پڑے گا، پرینکا گاندھی کا سیاست میں داخلہ ٹھیک اسی طرح ہوا ہے جیسے ان کی ماں سونیا گاندھی سیاست میں دیر سے داخل ہوئی تھیں، راہل گاندھی نے کہا تھا کہ وہ انھیں سیاست میں پہلے ہی لانا چاہتے تھے، لیکن پرینکا نے یہ کہہ کر منع کردیا تھا کہ ان کے بچے ابھی چھوٹے ہیں اور انھیں میری ضرورت ہے، اب پرینکا گاندھی کے بچے بڑے ہو گئے ہیں، پرینکا گاندھی نے محسوس کیا ہے کہ اب وہ گھر کی ذمہ داری سے آزاد ہیں، اور سیاست میں وقت دینے کے لئے تیار ہیں، سیاست میں ان کی سرگرمی ان کے انداز بیان پر منحصر کرے گی، انداز بیان سے ہی وہ عوام کو اپنی طرف راغب کر سکتی ہیں، انہیں اپنے اندر اپنی دادی کا کردار ڈھالنا ہوگا کیونکہ لوگ پرینکا کے اندر ان کی دادی کا ہی عکس تلاشتے ہیں، اگر وہ اپنی دادی کا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوئیں، تو اس میں شک نہیں ہے،کہ وہ اس ملک کی سر فہرست کی لیڈر بن جائیں۔

 پرینکا گاندھی کا سامنا مشرقی اتر پردیش میں دو قدآور لیڈروں وزیر اعظم نریندر مودی ( بنارس) اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ (گورکھپور) سے ہوگا، پرینکا گاندھی اگر ان دونوں لیڈروں کو ان کے علاقوں میں شکست دینے میں کامیاب ہو گئیں، تو بلا شبہ وہ ملک کی سیاست میں نکھر کر سامنے آئیں گی، مگر ابھی انہیں بی جے پی نے الجھن میں ڈالنے کی ہر سوں کوشش کی ہے، بی جے پی حکومت نے ان کے شوہر رابرٹ واڈرا کو منی لانڈرنگ اور زمین اسکنڈل میں پھنساکر پرینکا گاندھی کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ واڈرا کے خلاف ای ڈی کی جانچ پہلے ہی سے چل رہی تھی، مگر چونکہ بی جے پی کو اندازہ تھا کہ پرینکا گاندھی کبھی بھی سیاست میں داخل ہو سکتی ہیں، ویسے بھی بی جے پی سونیا اور راہل گاندھی کو نشانہ پر لیکر نہرو گاندھی خاندان کو بدنام کرنے کے در پہ تھی، ایسے میں جبکہ ان کے شوہر کو ای ڈی سے پوچھ گچھ کا سامنا ہے، پرینکا نے بی جے پی کو چیلنج کرنے کی ہمت کی ہے۔

  بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کانگریس کے سامنے مشکلیں ہی مشکلیں تھیں، اس کا گراف متواتر گر رہا تھا، عوام میں مقبولیت کم ہو رہی تھی، لیکن گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی تین ریاستوں میں ہوئی فتح نے کانگریسیوں کے حوصلوں کو بلند کیا ہے، عام پارلیمانی انتخابات میں مزید کامیابی ملے، اسی کے پیش نظر راہل کے ساتھ ساتھ پرینکا کو بھی سیاست میں لایا گیا ہے۔

 پرینکا کے سامنے سیاسی میدان میں مشکلیں بہت ہیں، جہاں انہیں اپنے سیاسی وجود میں استحکام لانا ہے، وہیں انھیں بی جے پی کو بھی بھاری ہزیمت سے دو چار کرنا ہے،اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں، تو لوگوں کو یقیناً اطمینان ہو جائے گا کہ دہائیوں کے بعد اندرا گاندھی کی شکل میں انھیں ان کی پوتی نظر آئی ہے، یہ پرینکا گاندھی کی محنت پر منحصر کرتا ہے کہ وہ سیاست کے اس میدان میں کتنی محنت کرتی ہیں، ان کی محنت ان کا عوام کے درمیان جانا، عوامی ریلیاں اور جلسے کرنا، تاکہ عوام میں ان کی پہچان تازی رہے، برسر اقتدار پارٹی میں عیب جوئی بھی انہیں عوام میں مقبولیت دلانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

  برسر اقتدار پارٹی نے جہاں ان کے شوہر پر شکنجہ کسا ہے، وہیں ان کے بھائی راہل گاندھی اور ماں سونیا گاندھی پر بھی ہیرالڈ ہاؤس معاملہ میں مقدمہ چلا رہی ہے، بہر حال پرینکا گاندھی ایسے وقت میں سیاست میں آئی ہیں، جبکہ ملک بے روزگاری اور بے کاری کا سامنا کر رہا ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں