محمد آصف ا قبال
کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوشگوار ہوتی ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے زور و شور کی جاتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے والا کون ہے اور اس کااستقبال کیسے کی جائے۔فی الوقت ہمارے پیش نظر رمضان المبارک ہے ،جس کی رحمتیں وبرکتیں امت مسلمہ نیز ان تمام لوگوں پر سایہ فگن ہونے والی ہیں خیر و اصلاح کا مہینہ سمجھتے ہیں۔رمضان المبارک نزولِ قرآن کا مہینہ ہے،تقویٰ، پرہیزگاری، ہمدردی، غمگساری، محبت وخیر خواہی، جذبہ خدمتِ خلق،راہ خدا میں استقامت، جذبہ حمیت اور جذبہ اتحاد،اللہ اور رسول سے بے انتہا لو‘ لگانے کا مہینہ ہے۔ لہذا اس کے شایان شان اس کا استقبال بھی ہونا چاہیے ۔ساتھ ہی ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ وہ تمام صفات سے ہم مزین ہو جائیں جو اس مہینہ کی پہچان ہے۔ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی ، شبِ قدر رکھی گئی،فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا، اس کے عشروں کومخصوص اہمیت دی گئی۔ساتھ ہی اس ماہ میں زکوٰۃ،انفاق اور فطرے کا اہتمام کیا گیا۔ نتیجتاً ماہِ رمضان کی عبادات کو خصوصی درجہ حاصل ہوا۔
رمضان المبارک کے یہ تین واقعات:رمضان المبارک کے یہ وہ تین واقعات ہیں جنھوں نے دنیا کی صورت یکسر تبدیل کر دی ہے۔اس کے باوجود یہ صحیح ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بنائے جانے والی حکمت عملی،پالیسی،لائحہ عمل اور تد ابیر وضع کرنے کے نتیجہ میں ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ابتدائی تین واقعات وہ مینارہ نور ہیں جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت امتِ مسلمہ اور مسلمان بحیثیت فرد واحدکامیابی سے ہمکنار ہوں۔وقتی و ابدی کامیابی کے حصول کے لیے یہ واقعات ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔پہلاواقعہ نزولِ قرآن ہے: واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے حیاتِ انسانی کو جلا بخشی اور دنیا کو تاریکی ،گمراہی اورشرک کی جڑوں سے نجات دلائی۔لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔اس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جس کے نتیجہ میں اس کا حق ادا کیا جا سکے۔دوسرا واقعہ جنگ بدر ہے:یہ واقعہ اس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علمبرداراِس سعی و جہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں ،جو اس نے عطا کی ہیں۔اللہ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے۔جس کے ذریعہ انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہوتا ہے۔ اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعہ خیر و فلاح کے کام انجام دیے جانے چاہیں۔اللہ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعہ جہالت،گمراہی اور باطل نظریہ ہائے افکار سے چھٹکارا پانااور دلایا جانا چاہیے۔اللہ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں استعمال کیا جا نا چاہیے۔اللہ نے جان دی ہے جس کے ذریعہ نظامِ باطل کو زیر کیا جا سکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔لیکن اس آخری انتہا سے قبل لاز م ہے کہ وہ کام انجام دیئے جائیں جن کا آغاز ہرشخص اپنی ذات سے کر سکتا ہے۔تیسرا واقعہ فتحِ مبین ہے : یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علمبردار دنیا میں بھی سرخ رو ہوں گے اور آخرت کی ابدی کامیابی بھی انہیں حاصل ہوگی۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کر لیا گیا ہو وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔یہ زمین اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے لہذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔یہ وہ زمین ہے جہاں اللہ کے نام لینے والے اللہ کے آگے سربجود ہوتے ہیں،اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے اپنی توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں اور اجتماعی شکل میں اسلامی فکرپروان چڑھاتے ہیں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اللہ کی کبرائی بیان کرنے والے بن جائیں، ان کی کمر غرور و تکبرکے محرکات سے اکڑے نہیں بلکہ مزیدوہ اللہ کے آگے جھک جانے والے بن جائیں۔فائدہ یہ ہوگا کہ ان میں انسانوں سے مزید خیر خواہی کے جذبات ابھریں گے جس کی شدت آج چہار جانب محسوس کی جا رہی ہے۔یہ تین واقعات اس جانب بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ماہ قرآن کے استقبال ،اس سے استفادہ اور اس کے بعد کے ایام میں ،ہمیں اپنے ظاہر و باطن میں وہ محرکات پیدا کر لینے چاہیں جن کے اختیار کے نتیجہ میں اللہ اور اس کے بندوں کے ہم محبوب بن جائیں۔
ماہ رمضان البارک یہ پیغام و شعور بھی ہمیں بخشتا ہے کہ امت کی بقا و تحفظ ان غیر اسلامی و غیر اخلاقی اقدامات سے ممکن نہیں ہے جو آج رواج پاچکے ہیں۔علمی میدان میں ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی بے جا آزادی و بالا دستی،صنعت و حرفت میں پیش قدمی،سائنس و ٹیکنالاجی میں دریافتیں،چاند اور مریخ پر کمندیں، یہ اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی طاقت نہیں محسوس کی جا سکتی جب تک کہ وہ اسلام کے سانچے میں نہ ڈھل جائیں۔دوسری جانب مسالک کی بنیاد پر ہم دینی مدارس کھولتے ہیں،کلمہ اور نماز کی تبلیغ کرتے ہیں،فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیں اور گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگاتے ہیں، حاصل؟حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہے اس کے مٹنے میں ذرا سستی آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے کچھ دن اورمیسر آجائیں۔لیکن اس لائحہ عمل کے ساتھ یہ امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اللہ کا دین غالب آئے گا یا اللہ کا کلمہ عوام الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے گا۔تیسری جانب یہ خیال کہ موجودہ نظام توان ہی غیر اسلامی بنیادوں پر قائم رہے، مگراخلاق ، معاشرت،معیشیت،نظم و نسق یا سیاست کی خرابیاں خود بہ خود ٹھیک ہو جائیں گی یا ان کی اصلاح ہو جائے گی! تو یہ خیال بھی غیر عملی کہلائے گا۔واقعہ یہ ہے کہ موجودہ نظامِ زندگی کی بنیادی خرابیوں کی آفریدہ اور پروردہ ہے اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل رہا ہے۔ ان حالات میں جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام ناگزیر ہے ، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری رکھے۔وہ کامل پروگرام کیا ہے؟اس سے قبل یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟اس موقع پر ہم یہ بتا تے چلیں کہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اب تک ہمارانظام حیات بنا ہوا ہے ،زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں بھی ہمارا شمار نامراد وناکام لوگوں میں ہوگا!
انسان جب کسی کا غلام بن جائے تو لازم ہے کہ اس کو غلامی سے نکالا جائے۔ کیونکہ انسان جسمانی و عقلی بنیادوں پر آزاد پیدا کیا گیا ہے ۔ساتھ ہی وہ اللہ کا بندہ بھی ہے۔ لہذا اس کے جسم اور اس کی فکر کو ہرسطح پر غلامی سے نجات دلانا اولین فریضہ ہے۔ ڈی کنڈیشنگ جسے عرفِ عام میں تطہیرِ فکر و قلب کہہ سکتے ہیں،یہ عمل انسان کو ہر طرح کی نفسیاتی غلامی کے خاتمے کا عمل ہے۔لیکن یہ عمل انہی افراد کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کر سکتا ہے جن میں یہ خواہش موجود ہو۔جس شخص میں یہ جذبہ ہی نہ ہو وہ آزادی کیسے اور کیونکر حاصل کر سکتا ہے؟ڈی کنڈیشنگ کا عمل، نفسیاتی آزادی کا عمل یا تطہیرِ فکر و قلب کا عمل ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو داعی الالخیرکی ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔اور یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے کہ ہم داعی حق بن جائیں۔لیکن داعی حق کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر ضروری بحث و مناظرے سے بچے،نہیں یہ عمل اسلام اور مسلمانوں دونوں کی شبیہ خراب کرتا ہے۔داعی حق کے لیے اخلاصِ نیت پہلی شرط ہے تو وہیں دوسری یہ کہ کارِ دعوت کا مقصد کسی شخص کو گھیر گھار کر اپنے نقطہ نظر پر قائل یا لاجواب کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔داعی کا کام صرف اتنا ہے کہ جس بات کو وہ حق سمجھتا ہے ،اسے احسن طریقہ سے دوسرے بھائی تک پہنچا دے۔ داعی کو کبھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اور نہ ہی اپنے مخاطب کوراست یا بلاواسطہ ایسی تنقید کا نشانہ بنانا چاہیے جس کے نتیجہ میں ضد پیدا ہونے کا امکان ہو۔کیونکہ ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی، کبھی سیدھے راستے کی راہنمائی نہیں کر تے۔لہذارمضان المبارک کا استقبال ہمیں اس طرح کرنا چاہیے کہ ہم پر یہ واضح ہو جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مقصد کیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا اصل اور بنیادی مقصد یہی تھا کہ دین پر نہ صرف مکمل عمل کرکے لوگوں کو بتا دیا جائے بلکہ یہ بھی کہ دین کو بے کم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا جائے۔ہمیں بھی اس رمضاالمبارک سے یہی پیغام لینا چاہیے۔اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطافرمائے۔(ملت ٹائمز)
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com