پلوامہ حملہ اور ملک کا سیاسی منظرنامہ 

چودھری آفتاب احمد

 پلوامہ میں 14 فروری کو ہوئے دہشت گردانہ حملہ اور اس کے بعد ہندوستان کی بدلہ کی کارروائی نے راتوں رات سیاست کے انتخابی مہروں کو بدل کے رکھ دیا، 14فروری سے پہلے کے تمام ایشوز ماضی کے ورق میں دفن ہو گئے،ملک کی ایک ارب سے زیادہ آبادی کے ذہن پلٹ گئے ،عام آدمی یہ طے نہیں کر پا رہا ہے، کہ یہ کیسے ہوا؟

 پلوامہ حملہ کے بعد کے حالات نے برسر اقتدار پارٹی کے گرتے گراف میں اضافہ کیا ہے اور وزیر اعظم کی مقبولیت کو بھی عام کیا ہے،ویسے جب کوئی ملک جنگ کی حالت میں ہوتا ہے، تو وہاں کی برسر اقتدار پارٹی اور اس کے سربراہ کو عوام کی حمایت ملنا فطری ہوتا ہے، ایسا ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی کے لئے ہورہا ہے، ویسے بھی ہمارے ملک کے لوگ سمجھنے سے پہلے جذبات میں بہہ جاتے ہیں، ایسا ہی گجرات دنگوں میں بھی ہوا تھا، جب گودھرا حادثہ کے بعد گجرات میں دنگے بھڑک اٹھے تھے، تب بی جے پی اور وہاں کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو ایسی حمایت ملی تھی، کہ اس کا فائدہ نریندر بھائی مودی کو آج تک مل رہا ہے۔

 اٹل بہاری واجپئی کو بھی کارگل جنگ کے دوران سارے ملک سے حمایت ملی تھی، اور ان کی پارٹی بی جے پی نے             1999 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، بی جے پی نے انتخابی مہم میں کارگل جنگ کی خوب تشہیر کی تھی، حالانکہ یہ سب کو پتہ تھا، کہ جنگ امریکی صدر بل کلنٹن نے رکوائی تھی، کارگل میں ہو رہی ہندوستانی فوج کی درگتی کو دیکھتے ہوئے اٹل بہاری واجپئی جنگ رکوانے کے لئے امریکی صدر بل کلنٹن کے پاس گئے تھے، بل کلنٹن نے پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف سے جنگ روکنے کی اپیل کی تھی، لیکن جنرل پرویز مشرف اس کے لئے راضی نہیں تھے، یہی وجہ رہی، کہ میاں نواز شریف کے جنگ روکنے کے حکم سے غصائے جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ پلٹ کر فوجی راج نافذ کردیا تھا، بل کلنٹن نے نواز شریف سے کئے گئے اپنے وعدہ کو پورا نہیں کیا، نواز شریف کی حکومت چلی گئی اور کشمیر مسئلہ جوں کا توں بنا رہا، حالانکہ بل کلنٹن نے جنگ روکنے کے عوض میں کشمیر مسئلہ حل کرنے کا وعدہ کیا تھا، جو ہنوز جوں کا توں ہے، اور دونوں فریق کی جانوں کا اتلاف ہو رہا ہے۔

 اس میں کوئی شک نہیں ہے،کہ بی جے پی عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے، مہنگائی اور بے روزگاری بڑھی ہے، اچھے دنوں کو آنا تھا مگر وہ خواب ہی بن کر رہہ گئے ہیں۔ تعبیر باقی ہے،عام آدمی سمجھ رہا تھا کہ یہ جملوں کی حکومت ہے، حقیقت سے اس کا واسطہ نہیں ہے، لیکن پلوامہ حملہ کے بعد سے لوگ اب ایسا نہیں سوچ رہے ہیں، اس حملہ نے سب کچھ بدل دیا ہے، ہماری ہمدردیاں اب مودی حکومت کے ساتھ ہیں، ہم سب کچھ سمجھ کر بھی یہ نہیں سمجھ پاتے، کہ حملہ کے پیچھے کی کڑیاں کیا ہیں، کونسی کڑی ٹوٹنے سے حملہ ہوا ہے، یہ ہم ہندوستانیوں کے لئے یہ ایک بڑا المیہ ہے، کہ بغیر سوچے سمجھے کسی کی حمایت کر بیٹھتے ہیں اور کسی کو قصوروار ٹھہرا دیتے ہیں، ایسا ہی پلوامہ حملہ میں ہوا ہے، ہم نے کسی کو ہیرو بنادیا ہے، اور کسی کو الزام دے دیا ہے۔

 بہرحال کہنے کا مفہوم یہ ہے،کہ جب ہم یہ کہہ رہے ہیں ،کہ جس بارود سے بی ایس ایف کی گاڑی اڑائی گئی ہے، وہ بارود پڑوسی ملک پاکستان سے آ یا ہے، اور اس کے لئے پاکستان حکومت ذمہ دار ہے، اس لئے ہمیں اس پر حملہ کردینا چاہئے، کیونکہ وہی ملک ہمارا دشمن ہے، لیکن کیا کسی نے یہ سوچنے کی ہمت کی ہے، کہ پاکستان سے بارود پلوامہ تک آ کیسے گیا؟ جبکہ پاکستان کی سرحد پر ہندوستان کی فوج رات دن پہرا دے رہی ہے، چلئے اگر یہاں ہماری فوج سے چوک ہوئی ،تو کشمیر کے اندر جہاں چپہ چپہ پر فوج تعینات ہے، کیسے بارود کو حملہ کی جگہ تک آنے دیا گیا؟ سوال اٹھتا ہے، کہ یہ کس کی کمی اور کس کی کمزوری ہے، بارود کے وہاں تک پہنچنے میں کیا ہماری سکورٹی فورسز ناکام رہی ہےں؟ آیا ہماری حکومت کی کمزوری رہی ہے؟ کہ وہ ملک کے محافظ دستوں کی حفاظت کرنے میں چوک کر گئی ہے، جو اتنا بڑا واقعہ ہوگیا ہے، یہ سوال کوئی کیوں نہیں اٹھا رہا ہے؟ ایسا سوال پوچھنے کی ہمت اس لئے نہیں کی جا رہی ہے، کیونکہ برسر اقتدار پارٹی کوئی بھی سوال کرتے ہی اپوزیشن لیڈروں کو فوج کے خلاف بتاکر عوام کو گمراہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگا رہی ہے، پھر حادثہ کی تمام کڑیوں کے پیچھے کون ہے؟ اس سوال کا جواب تلاشنا بھی ضروری ہے۔

 کانگریس صدر راہل گاندھی نے وزیر اعظم مودی سے سوال پوچھنے کی ہمت کی ہے،لیکن وہاں سے جواب ملتا ہے، کہ ہم دہشت گردی سے لڑ رہے ہیں اور یہ ہمارے سے لڑ رہے ہیں،سب سے پہلے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے حملہ کے وقت پر سوال اٹھایا تھا، پھر مایاوتی اور اکھلیش یادو نے بھی اس حملہ اور فوجیوں کی شہادت پر سیاست کرنے کا مودی حکومت پر الزام لگایا، جوانوں کی شہادت پر سیاست نہ ہو یہ اچھی بات ہے، سیاست ان ایشوز پر ہو جن ایشوز سے عوام کی فلاح کے کام ہوتے ہوں، ملک میں ترقی کے امکان بننے کی کوشش ہوتی ہو، مگر افسوس یہ ہے، کہ ہمارے لیڈر ان مدعوں پر انتخاب جیت نے کی امید نہیں رکھتے، اور رکھیں بھی کیسے؟ جب عوام سے وعدے کرکے انھیں پورے ہی نہیں کرتے؟

  دیکھنے میں آرہا ہے، کہ جب جب اپوزیشن حکومت کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہواہے، انھوں نے دہشت گردوں سے نمٹنے کا بہانہ بنا کر کے سرجیکل اسٹرائیک کی ہے، اور اب جبکہ اپوزیشن کے الزاموں سے ملک کے سربراہ گھرنے لگے، تو انھوں نے ایئر اسٹرائیک کردی ہے، دونوں ہی اسٹرائیک عوام کی حکومت سے توجہ ہٹانے کے لئے کی گئیں ہیں، سرجیکل اسٹرائیک کو پاکستان کی حکومت اور عالمی میڈیا نے غلط بتایا تھا، کہ ان کے ملک میں کوئی حملہ ہوا ہی نہیں ہے، اس سے عالمی سطح پر ملک کی شبیہ خراب ہوئی اور جھوٹ والی چھاپ دنیا میں بھی دکھائی دی، اب کے ہماری فوج نے رات کے اندھیرے میں ناکام حملہ کیا ،مگر اسے کامیاب بتایا گیا، اگلے ہی روز ہمیں اس حملہ کا دن میں جواب مل گیا، اور دونوں طرح کا نقصان اٹھانا پڑا، کارگل کی طرح ہمیں پھر امریکہ اور یہاں تک کہ چین کا بھی ڈپلومک سہارا لینا پڑا، یہی نہیں او آئی سی میں بھی پھٹکار جھیلنی پڑی، یہ سب کیوں ہوا؟ کیا یہ برسر اقتدار پارٹی نے اپنے گرتے گراف کو اٹھانے کے لئے ایسا کیا؟ کیا ملک کے وزیر اعظم نے گجرات دنگوں میں ملی کامیابی کا یہاں بھی کریڈٹ لینا چاہا؟ بہر حال انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوگیا ہے، یہ عوام کو طے کرنا ہے کہ ان کے اور ان کے ملک کے لئے کیا بہتر ہے۔

(مضمون نگار کانگریسی لیڈر اور ہریانہ کے سابق وزیر ہیں )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں