خبر در خبر (602)
شمس تبریز قاسمی
2019 عام انتخابات کے بارے میں دو ماہ قبل جتنا کچھ سوچاگیا تھا اب ویسا نظر نہیں آرہاہے ۔ الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل جس طرح سیکولر پارٹیوں نے اتحاد کا مظاہر ہ کیاتھا ۔مختلف ریلیوں اور اسٹیجوں پر سبھی نے ایک ساتھ شرکت کی تھی۔ فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف متحد ہونے کا عزم کیاتھا اب وہ جوش وجذبہ نظر نہیں آرہاہے ۔ آئین اور دستور کے تحفظ وبقاءکیلئے جس قربانی کی بات ہورہی تھی اس کا فقدان ہوچکاہے ۔سیٹوں کی تقسیم کے دوران اتحاد کامیاب نہیں ہوپارہاہے ۔یوپی میں ایس پی بی ایس پی کے ساتھ کانگریس کا اتحاد پہلے ہی ناکام ہوچکاہے ۔ بہار میں بھی مسلسل کوششوں کے باوجود اب تک کامیابی نہیں مل سکی ہے ۔معتبر ذرائع کے مطابق بہار کی 40 لوک سبھا سیٹوں میں سے 20 پر آر جے ڈی الیکشن لڑنا چاہ رہی ہے ۔بقیہ بیس میں سے 11 پر کانگریس اپنے امیدواروں کو اتارنا چاہتی۔ نو سیٹیں اوپندر کشواہا ، جیتن رام مانجھی ،مکیش سہنی اور شرد یادو کیلئے چھوڑی جارہی ہے لیکن یہ چارو ں اس پر راضی نہیں ہیں ۔ اوپندر کشواہا کے تین موجودہ ایم پی ہیں اور اب وہ پانچ سیٹوں پر دعوی کررہے ہیں ۔ مانجھی اور مکیش سہنی دودوسیٹوں کا مطالبہ کررہے ہیں ۔شرد یادو چار سیٹوں پر الیکشن لڑنا چاہ رہے ہیں جبکہ آخر الذکر تینوں پارٹیوں کا لوک سبھامیں کوئی وجود نہیں ہے ۔ آر ایل ایس پی کا بھی اپنا کوئی وجود نہیںتھا۔ 2014 کے عام انتخابات میں این ڈی اے اتحاد کا حصہ ہونے کی وجہ سے اسے تین سیٹوں پر کامیابی ملی تھی ۔کانگریس ان تینوں کو اتحاد میں رکھنا بھی چاہ رہی ہے لیکن انہیں 9 سیٹوں کے درمیان منحصر کرنا چاہ رہی ہے جبکہ ان چاروں کا کانگریس سے صرف 8 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا مطالبہ ہے ۔ این ڈی اے نے بہار میں سیٹوں کی تقسیم کا اعلان کردیاہے ۔ 1717سیٹوں پر بی جے پی اور جے ڈی یو الیکشن لڑے گی ۔ چھ سیٹوں پر ایل جی پی قسمت آزمائی کرے گی ۔بہار کی کشن گنج سیٹ پرمسلسل تذبذب برقرار ہے ، کانگریس سے ڈاکٹر محمد جاوید ، زاہد الرحمن اور مفتی اعجاز ارشد قاسمی کا نام اسکریننگ کمیٹی کے پاس ہے ۔ جے ڈی یو نے محمود اشرف کو وہاں سے اپنا لوک سبھا امیدوار نامزکردیاہے ۔ ایم آئی ایم سے اختر الایمان وہاں کے مضبوط امیدوار کی حیثیت سے اپنی شناخت بناچکے ہیں ۔جے ڈی یو کے کئی امیدواروں نے ان کی وجہ سے نتیش کمار کے آفر تک کو قبول کرنے سے انکار کردیا کیوں انہیں اندازہ تھاکہ الیکشن میں کامیابی نہیں مل پائے گی ۔کانگریس کے کئی قدآور لیڈروہاں جانے سے گریز کررہے ہیں۔ بہر حال یہاں مقابلہ تین مسلم امیدواروں کے درمیان ہی ہوگا ۔
کانگریس پارٹی کی یہ بھی روایت رہی ہے کہ اس نے کبھی بھی مسلم قیادت کو ابھر نے نہیں دیاہے۔چناں چہ آسام میں ایک مرتبہ پھر اس کا مظاہر ہ ہورہاہے جہاں مولانا بد ر الدین اجمل کی قیادت والی آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے ساتھ کانگریس اتحاد نہیں کررہی ہے ۔
آسام لوک سبھا میں کانگریس اور یو ڈی ایف کی حیثیت برابر ہے ۔ 2014 لوک سبھا انتخابات میں تین سیٹوں پر اے آئی یو ڈی ایف کو جیت ملی تھی اور کانگریس کوبھی تین ہی سیٹوں پر کامیابی ملی ۔آسام اسمبلی میں بھی یو ڈی ایف اور کانگریس کی نمائندگی میں زیادہ فرق نہیں ہے مطلب آسام میں دونوں کی حیثیت فی الحال برابر ہے ۔ کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کے ساتھ پورے پانچ سال میں مولانا ہر معاملے میں ساتھ کھڑے تھے ۔ اس دوران انہوں نے ہمیشہ کانگریس سے اتحاد کرنے کی کوشش کی ۔کانگریس نے بھی اتحاد کرنے کی بات کی لیکن اب عین الیکشن کے دوران کانگریس یو ڈی ایف کو کوئی حیثیت نہیں دے رہی ہے ۔ ترون گگوئی نے پرانا ڈائیلاگ دہرانا شروع کردیا ہے ’ Who is Ajmal?’اجمل کون ہے؟ “
بدر الدین اجمل صاحب سے کہاجارہاہے کہ وہ صرف دو سیٹوں پر اپنے نمائندے کھڑے کریں وہاں بھی وہ قبل از الیکشن اتحاد کے بجائے اپنے کمزور نمائندے کو اتارنے کی بات کررہی ہے ۔مولانا اجمل کا کہناہے کہ ہمارے پاس تین موجودہ ایم پی ہیں ۔ 14 میں سے کانگریس ہمیں صر ف چار سیٹیں دے دے بقیہدس سیٹوں پر وہ اپنے امیدوار کو اتارے لیکن کانگریس کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے ۔آسام کے چھ حلقوں کیلئے کانگریس نے اپنے امیدواروں کا اعلان بھی کردیاہے جس میں کریم گنج لوک سبھا حلقہ بھی شامل ہے جہاں سے یو ڈی ایف کے ایم پی رادھے شیام ہیں ۔
کانگریس چھوٹی پارٹیوں کو عموما کوئی حیثیت دینے کے بجائے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتی ہے اور مسلم قیادت والی سیکولر پارٹیوں کو بالکل ہی کوئی حیثیت نہیں دیتی ہے ۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی ایک خاص شبیہ بنادی گئی ہے جس کی وجہ سے اسے اتحاد میں شامل نہ کرنے کی وجہ کسی حدتک سمجھ میں آتی ہے لیکن یو ڈی ایف کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ بھی نہیں ہے ۔ آسام سمیت پورے ملک میں اس کی شناخت ایک سیکولر پارٹی کی ہے ۔ اس کے ووٹرس مسلم اور غیر مسلم سبھی ہیں ۔ پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے والے بھی مسلم اور غیر مسلم دونوں ہیں ۔ تین لوک سبھا ایم پی میں سے ایک غیر مسلم ہے ۔ متعدد ایم ایل اے غیر مسلم ہیں ۔۔
کانگریس شروع دن سے یو ڈی ایف اور مولانا اجمل کی مخالفت کرتی رہی ہے لیکن انہیں کامیابی ملتی رہی ۔ سیٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوتارہا ۔عوام میں اب کانگریس سے زیادہ یو ڈی ایف کی حیثیت ہے ۔ مختلف رفاہی ،فلاحی،سماجی اور تعلیمی کاموں کی وجہ سے مولانا اجمل اور ان کی پارٹی کو عوام کے درمیان غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے ۔ ان کے 20 سے زائد کالجز ہیں ۔ 40 سے زائد انگلش میڈیم اسکولز ہیں ۔ دیگر تعلیمی ادارے ،ہسپتال، یتیم خانے وغیرہ کی لمبے فہرست ہے۔ ان کے تعلیمی کارناموں میں مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر بھی شامل ہے جہاں سے مدارس کے فضلا ءمیں انگریزی سیکھنے کی بنیاد پڑی اور آج دنیا بھر میں اسے ایک مثالی تحریک ،کامیاب ادارہ اورعظیم فکر کی حیثیت حاصل ہے ۔شروع دن سے آین آر سی کا مقدمہ وہ لڑرہے ہیں ۔یہ سب ان کے ایسے کارنامے ہیں جن کی بنیاد پر آسام کے عوام بلاکسی مذہبی تفریق کے مولانا بدرالدین اجمل کا بھر پور ساتھ دیتے ہیں اور ان کی پارٹی یو ڈی ایف کے حق میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں ۔ ایسے میں نقصان کانگریس کا ہی ہوگا ۔سیکولر ووٹوں کا انتشار ہوگا اور آسام میں مشن 14 ک خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوپائے گا ۔
آسام کی 14 لوک سبھا کی سیٹیں اسی وقت جیتی جاسکتی ہیں جب یو ڈی ایف او رکانگریس کے درمیان اتحاد ہوگا ورنہ ووٹوں کی تقسیم سے این ڈی اے کو فائدہ ملے گا ۔ بی جے پی اتحاد کی اہمیت کو سمجھتی ہے اس لئے اس نے مہاراشٹر میں شیوسینا کے ساتھ دوبارہ اتحا د قائم کرلیاہے ۔ آسام میں اے جی پی کے سامنے جھک کر اس نے سمجھوتہ کو ترجیح دیا ہے لیکن کانگریس اپنے اتحاد کے بجائے تنہا الیکشن لڑنے پر بضد ہے۔
در اصل کانگریس کا مقصد یو ڈی ایف کے وجو د کو نقصان پہونچانا اور ختم کرناہے ۔2016 اسمبلی انتخابا ت میں بھی کانگریس نے یہی کیاتھا ۔مولانا اجمل کی ہر ممکن کوششوں کے باجود کانگریس نے سمجھوتہ نہیں کیا ۔بی جے پی کی جیت کے بعد ترون گگوئی نے کہاہمیں اپنی شکست کا غم نہیں ہے نہ ہی بی جے پی کی جیت پر کوئی افسوس ہے البتہ یو ڈی ایف کے کنگ میکر نہ بن پانے پر خوشی ہے ۔
کانگریس کی بھلائی میں اسی میں ہے کہ وہ کرناٹک کی طرح دہلی ،آسام اور بہار سمیت ان تما م صوبوں میں اتحاد کرکے الیکشن لڑے جہاں علاقائی پارٹیوں کا اثر ورسوخ ہے ورنہ 2019 میں بھی2014 جیسے نتائج کا سامناکرناپڑے گا اور علاقائی پارٹیوں کو نظر انداز کرنا بہت مہنگا ثابت ہوگا ۔ ہاں اگر کانگریس 2019 میں بھی بی جے پی کو ہی موقع دینا چاہتی ہے تو یہ الگ بات ہے ۔
stqasmi@gmail.com