سونابھدر، یوپی: (ملت ٹائمز – فضل المبین) اترپردیش کے سونابھدر ضلع کے اوبرا تھانہ میں واقع گرام پرسوئی میں بھیڑ کے ذریعے ایک شخص کی نہایت ہی بے دردی کے ساتھ پٹائی کی گئی، فاورا پھر کلہاڑی سے کاٹ کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔
واقعہ ہولی کے دہن کی رات تقریباً 20 افراد نے مل کر محمد انور نام کے ایک بزرگ شخص کی درندگی کے ساتھ پٹائی کی اور پھر کلہاڑی سے کاٹ ڈالا۔ بتایا جاتا ہے کہ انور ایک دن پہلے ہی اجمیر شریف سے زیارت کر لوٹے تھے اور بیس مارچ کی رات انہیں مار دیا گیا ۔
حالانکہ اس معاملے میں پولیس کی جانب سے 20 افراد پر ایف آئی آر درج ہوئے ہیں جن میں خاص ملزم پسماندہ طبقہ سے آنے والا ایک گورمنٹ اسکولی ٹیچر رویندر کھروار ہے، جو وہاں کچھ دنوں سے آر ایس ایس کی شاخ چلا رہا تھا۔
مدھیہ پردیش کی سرحد سے متصل پر واقع اوبرا تھانہ کے پر سوئی گاؤں میں محرم چبوترے کو لے کر سابقہ چند مہینوں سے ایک تنازعہ کی شکل دی جا رہی تھی جس کی وجہ سے آج محمد انور کا قتل ہوا ہے ۔
پرسوئی گاؤں میں محمد انور کے گھر کے پاس امام چوک ( امام باڑہ) بنا ہوا ہے ۔ جس کو لے کر کچھ دنوں پہلے لوگوں سے جھڑپ ہوا تھا، محمد انور کے بیٹے محمد حسین نے بتایا کہ 5 مہینے پہلے بھی امام چوک کو لے کر تنازعہ ہوا تھا، جس کی اطلاع پولیس کو دی گئی تھی۔ جس پر پولیس کی جانب سے بھروسہ دلایا گیا تھا کہ اب جھگڑا نہیں ہو گا ” لیکن آج میرے والد کو لوگوں نے گمچھے سے باندھ کر کلہاڑی سے ان کی جان لے لی“ ۔
ادھر واقعے کی خبر پاتے ہی پولیس محکمہ میں ہڑکمپ مچ گیا اور موقع پر ایس پی سلمان تاج پاٹل سمیت کی اعلی افسران پہنچ گئے ۔
موقع پر پہنچے ایس پی نے بتایا کہ اوبرا تھانہ علاقہ کے پر سوئی گاؤں کا واقعہ ہے رات تقریباً ایک بجے پولیس کو خبر ملی کہ محمد انور شدید طور پر زخمی ہے جسے علاج کے لیے اسپتال لایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا ۔
اس سلسلے میں محمد انور کے بیٹے کی تحریر پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے یہ واقعہ تعزیہ رکھنے والی جگہ امام باڑہ کو لے کر ہے اس سے قبل بھی اسی جگہ کو لے کر کچھ ماہ پہلے پڑوس کے راجیش پرجاپتی سے بھی لڑائی ہوئی تھی جس میں پولیس نے ہدایت بھی دیا تھا کہ آئندہ ایسی حرکت سے گریز کریں ۔
ایس پی نے یہ بھی بتایا کہ 20 مارچ کے آدھی رات کچھ لوگ اسی چبوترے کو توڑ رہے تھے جسے گھر سے ٹہلنے نکلے انور نے دیکھا اور انہیں روکنے کی کوشش کی لوگوں نے حملہ کردیا جس سے اس کی موت ہو گئی، وہیں اہل خانہ کے مطابق گاؤں میں تعزیہ رکھنے کا چبوترہ بنا ہے – اسے امام چوک بھی کہتے ہیں – پچھلے پندرہ بیس سالوں سے یہاں تعزیہ رکھی جاتی تھی اور ہندو مسلم مل کر تعزیہ اٹھاتے تھے ۔ لیکن پچھلے چھ مہینے کے دوران جونیر ہائی اسکول کے سرکاری ٹیچر رویندر کھروار وہاں سنگھ کی شاخ لگانے لگے اور چبوترہ قبضہ کرنے کے چکر میں پڑ گئے اس کو لے کر ڈیڑھ مہینے قبل بھی معاملہ ہوا تھا جس کے بعد سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور پولیس اہلکاروں کی مدد سے معاملے کو پرسکون بنایا گیا تھا ۔
خبر کے لکھے جانے تک علاقے کا ماحول پرسکون ہے موقع پر کافی تعداد میں پولیس کے جوان تعینات ہیں ۔
وہاں کے نامہ نگاروں کے مطابق اس سے قبل آدیواسی علاقے میں کبھی کوئی فرقہ پرست واقعہ نہیں ہوئی تھی اور آدیواسی مسلمان مل جل کر رہتے تھے اور کام کرتے تھے لیکن یہاں پہلی بار سنگھ کی شاخ لگنی شروع ہوئی جس کا نتیجہ ایک بے گناہ مسلمان کا قتل سامنے آیا ۔ ان لوگوں نے پولیس محکمہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بار ایف آئی آر میں سنگھ کی شاخ کا باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے ۔
اب ایسے سوال اٹھانا لازمی ہے کہ اتنے سارے چوکیداروں کے بیچ آخر ایک بے گناہ مسلمان کا قتل کیسے ہو گیا؟ اس کا قصور کیا تھ؟ا اور کہاں سو رہے تھے یہ چوکیدار ؟ ظاہر سی بات ہے بھلے ہی ٹویٹر پر چوکیدار لکھا جا رہا ہوں لیکن سنگھ اور بی جے پی کے کارکنان چوکیدار نہیں بلکہ معصوم عوام کے لئے خونخوار ثابت ہو رہے ہیں۔