بنات صرف ایک تنظیم نہیں ایک تحر یک ثابت ہوگی: ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید 

نئی دہلی: (پریس ریلیز) بین الاقوامی نسائی ادبی تنظیم ’ بنات ‘ نے راجدھانی دلی میں یک روزہ جلسے کا انعقاد کیا۔ موقع تھا عالمی یوم نسواں۔ اردو ادب میں نسائی رنگ کے عنوان سے یہ جلسہ غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین دہلی میں منعقد کیا گیا۔ اس پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے پدم شری ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے شرکت کی۔ انہوں نے بنات کے قیام پر خوشگوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری دعا ہے یہ تنظیم ایک تحریک کی شکل میں ساری دنیا میں نام پیدا کرے ۔ انہوں نے اس موقع پر بنات کی طرف سے ایوارڈ حاصل کرنے والے تمام ایوارڈ یافتگان کو دلی مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک چیلنجنگ دور سے گزر رہے ہیں اور یہ خوشی کی بات ہے کہ اپنے قیام کے پہلے دن سے فعال بنات ایک تنظیم نہیں ایک تحریک ہے۔ بنات کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے اسکے لئے اپنی تخلیقات کو انگریزی کا قالب بھی دیجئے۔ اس موقع پر پروفیسر انور پاشا نے اپنے توسعی خطبے میں کہا کہ بنات کا قیام ایک تاریخی قدم ہے۔ المیہ یہ ہے کہ تاریخ کے ارتقا کے ساتھ معاشرے نے خواتین کو حاشیے پہ دھکیل دیا لیکن  یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی انھیں مواقع میسر آئے انہوں نے ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے اور قلم سے اپنے عہد کی ترجمانی کی ہے۔ بنات نے اس سال دو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ جیلانی بانو اور رتن سنگھ کو دیئے۔ داراب بانو وفا ایوارڈ برائے شاعری رفیعہ شبنم عابدی کو دیا گیا جبکہ ادبی اور سماجی خدمات کے لئے عبیدہ سمیع الزماں کو ممتاز شیریں ایوارڈ دیا گیا۔ فکشن کے لئے رشید جہاں ایوارڈ مسرور جہاں کو اور سماجی خدمات کے لئے بنات الہند کا خطاب ممدوحہ ماجد کو دیا گیا۔


اس موقع پر بنات کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازے گئے مشہور و معروف فکشن نگار رتن سنگھ نے کہا کہ جب سے دنیا بنی ہے تب سے کہانی کو آگے بڑھانے میں عورتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مائیں اور دادیاں اپنے بچوں کو جو کہانیاں سنایا کرتی تھیں اسی سے اس کی شخصیت ڈھلتی تھی۔ برائی سے ہٹنا اور اچھائی کی طرف بڑھنا ، بچے انہیں کہانیوں سے سیکھتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ داستان گوئی کا فن دھیرے دھیرے سماج سے ختم ہو گیا جسے دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بنات کی طرف سے سماجی خدمت کے لئے بنات الہند ایوارڈ سے سرفراز آل انڈیا ریڈیو کی عربی سروس سے وابستہ رہیں اور سماجی خدمتگار کے طور پر ممدوحہ باجی کے نام سے معروف ممدوحہ ماجد نے اپنے خطاب میں زور دے کر کہا کہ خواتین کو اپنے حق کے لئے خود آگے آنے کی ضرورت ہے۔ 
اس موقع پر اپنے استقبالیہ کلمات میں بنات کی صدر نگار عظیم نے بنات کےلئے مستقبل کے لائحہ عمل کا تفصیل سے ذکر کیااور امید ظاہر کی کہ ادب برائے تعمیر ، اخوت اور سماجی ہم آہنگی کی بنیاد پرقائم یہ تنظیم ادبی مقاصد کی تکمیل کے ساتھ ساتھ سماجی خدمت کے طور پر بھی نام روشن کرے گی۔
 اس پروگرا م میں ہندوستان بھر سے بنات کی ممبرس خواتین قلم کار ،شاعرات و نثر نگارشامل ہوئیں۔ بھوپال سے رضیہ حامد، جموں سے زنفر کھوکھر، اتراکھنڈ سے افشاں ملک ،حیدرآباد سے شبینہ فرشوری، علی گڑھ سے صبیحہ سنبل ، آصف اظہار علی، نرجس فاطمہ، گلشن، بنارس سے نفیس بانو، رام پور سے انجم بہار شمسی ، میرٹھ سے شاداب علیم، ممبئی سے سیدہ تبسم ناڈکر ، دہلی سے شمع افروز زیدی، غزالہ قمر اعزاز، سلمہ شاہین، وسیم راشد، سفینہ ،ترنم جہاں شبنم، عزہ معین، شاداب تبسم ، شاہدہ فاطمہ، صبیحہ ناہد ، شاذیہ عمیر ، رضیہ حیدر خان، افسانہ حیات اور چشمہ فاروقی نے بھی شرکت کی۔ نثری نشست کے علاوہ مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں سامعین کی حیثیت سے شامل ہونے والے کئی شعراء نے بھی اپنے کلام سے نوازا ۔ 
 بنات کی نائب صدر عذرا نقوی نے افتتاحی اجلاس کی صدارت کی اور نظامت کے فرائض بنات کی جنرل سکریٹری تسنیم کوثر نے انجام دیئے۔ نعیمہ جعفری پاشا نے شکریے کی رسم ادا کی۔اس اجلاس میں ملک بھر سے بنات کی ممبران نے شرکت کی۔دہلی اور اطراف کے معزز شخصیات نے بھی شرکت کی۔