دیوبند: (سمیر چودھری) دارالعلوم دیوبند کے ممتاز استاذ حدیث مولانا جمیل احمد سکروڑوی کا آج طویل علالت بعد انتقال ہوگیا ہے، ان کے انتقال کی خبر سے متعلقین اور اعز و اقارب کے علاوہ طلباء مدارس و اساتذہ بالخصوص دارالعلوم دیوبند اور ارباب مداس میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مولانا مرحوم گزشتہ کافی عرصہ سے انتہائی مہلک مرض میں مبتلا تھے اور ان کا مسلسل ملک کے بڑے ہسپتالوں میں علاج چل رہا تھا، مگر افاقہ نہیں ہوسکا ، جس کے باعث آج شام پانچ بجے دہلی کے جی ٹی بی ہسپتال میں تقریباً 70 سال کی عمر میں آخری سانس لی۔ ان کے انتقال کی خبر کچھ دیر میں سوشل میڈیا کے ذریعہ دنیا بھر میں پھیل گئی اور طلباء و اساتذہ کا غم غفیر تعزیت کے لئے ان کی رہائش گاہ پر پہنچنے لگا۔مرحوم کے انتقال پر دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مرحوم نرم دل، خوش اخلا ق اور بے شمار خصوصیات کی حامل شخصیت کے مالک تھے، چھوٹوں پر شفقت اور طلبا کے ساتھ نہایت مشفقانہ رویہ کے لئے آپ مشہور تھے ، مرحوم کے درس کا خاص انداز طلباء میں کافی مقبول تھا، نصف صدی سے درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ جامعہ کاشف العلوم چھٹمل پور، گاگلہیڑی کے بعد دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند میں خدمت علم دین کا فریضہ انجام دیا۔ فی الحال دارالعلوم دیوبند میں درس حدیث دیتے تھے۔ مرحوم کے ہزاروں شاگرد ملک و بیرون ملک میں خدمت دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ مرحوم متعدد کتابوں کے مصنف اور شارح تھے، ان کی ہدایہ کی شرح کافی مقبول ہے۔ پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ نماز جنازہ آج صبح (پیر ) آٹھ بجے دارالعلوم دیوبند کی احاطہ مولسری میں ادا کی جائیگی ،بعد ازیں قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئیگی۔ مولانا جمیل سکروڑوی کے انتقال پر مہتمم دارالعلوم دیوبند مفتی ابوالقاسم نعمانی، دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی، سکریٹری مولانا محمود مدنی، دارالعلوم زکریا کے مہتمم مفتی شریف خان قاسمی، جامعہ مظاہرعلوم کے امین عام مولانا سید شاہد حسنی ، مولانا حکیم عبداللہ مغیثی، مولانا ندیم الواجدی، مولانا حسن الہاشمی ، مولانانسیم اختر شاہ قیصر، مولانا مزمل علی قاسمی آسامی، منیجر مسلم فنڈ سہیل صدیقی،حاجی شرافت روڑکی، قاری ممتاز احمد قاسمی وغیرہ نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی وفات کو ایک عہد کے خاتمہ سے تعبیر کیا ہے۔