ماہ مبارک کا احترام کیجئے

محمد ارشد فیضی قاسمی
رمضان کا مبارک مہینہ اپنی تمام تر بر کتوں اور سعادتوں کے ساتھ ایک بار پھر ہم پر سایہ فگن ہے ،اور ہم اس کے نورانی جلوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں عام طور پر اس مبارک مہینہ کے آتے ہی پوری دنیا کے مسلمانوں کے ذہنوں میں خوشی ومسرت اور جشن و سرور کی ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو جا تی ہے اور ہر کوی اپنے دل میں اس ماہ کی عظمت و وقعت کا احساس پیدا کر کے مختلف عبادات کی ادایگی کے ذریعہ حتی الامکان اس کی قدر دانی کی کو شش کر تا ہے ، کیو نکہ اللہ رب العزت نے اس مہینہ کو خاص فضیلت عطا فر مائی ہے ،اور باری تعالیٰ اس مہینے میں بندوں کو اپنی نوازش شاہانہ کی دولت سے نوازتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں میں ہر کوئی نیکی اور خیر خواہی کے معاملے میں ایک دوسرے پر نہ صرف سبقت لیجانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسے اعمال کئے جاتے ہیں جو انہیں اپنے رب سے قریب کر سکے ،تاریخی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس کی پہلی تاریخ کو صحف ابراہیم کا نزول ہوا ،اس کے سات سو برس بعد چھٹی تاریخ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کتاب توریت نازل ہوئی،پانچ سو برس بعد حضرت داود علیہ السلام پر کتاب زبور اتری بارہ سو برس بعد اٹھارہویں تاریخ کو حضرت عیسی ٰعلیہ السلام کو انجیل دی گئی اور نزول انجیل کے پورے چھ سو برس بعد ستائیسویں تاریخ کو خاتم رسل فخر الاولیاء والآخرین رسول اکرم صلی ٰاللہ علیہ وسلم کو قرآن عنایت فرمایا گیا۔
قرآن وحدیث کی وضاحتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ میں بندوں پر خدا کی خاص رحمت نازل ہوتی ہے،یہی وجہ ہے کہ پورا سال غفلت اور معاصی میں گزاردینے والا شخص بھی مایوس ہو نے کی بجائے ان ایام میں ایک فطری سکون محسوس کر تا ہے اور اپنے اندر ایک سعید انقلاب لانے کی کوشش کر تے ہوئے ایمانی قوت کے ساتھ خدا کے دربار میں حاضر ہو کر اپنی معافی کی درخواست پیش کرتا ہے اور اس امید کے ساتھ خود کو اس ماہ کی عبادات کا عادی بنا لیتا ہے کہ اس کی معمولی سی کوشش اس کی تمام تر لغزشوں پرپردہ ڈال کر اسے عزت کا مقام عطا کر سکتی ہے ، چونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بہت پہلے ہی ایسے لوگوں کے لئے یہ بشارت سنائی جا چکی ہے کہ ؛ روزہ اور صدقہ گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے کہ آگ کو پانی بجھا دیتاہے ۔
الغرض رمضان المبارک تقرب الٰہی کے حصول کا ایسا مبارک مہینہ ہے اس ماہ کے اندر کی جانے والی معمولی سے معمولی عبادت بھی برسوں کے گناہوں کے لئے کفارہ بن جاتی ہے ،اس ماہ کو اللہ نے ایسی عبادتوں سے آراستہ کر دیا ہے جو بندے کو خدا سے قریب کرتی ہیں۔ رمضان کے شب و روز انوار الٰہی کی تجلیات سے مشکبار ہوتے ہیں اور خدا سے روٹھے ہوئے بندے اس ماہ کی عبادتوں کے ذریعہ خود کو اللہ سے قریب کر لینے کی کوشش کرتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر رمضان جیسا مبارک مہینہ بھی غفلت اور بے حسی میں گزر جائے اور بندہ ان ایام میں خدا سے لو لگا کر اپنی بخشش نہ کروا لے تو بھلا ان کی مغفرت کے لئے اور کون سا زمانہ آئے گا، ماہ رمضان کی عظمت ووقعت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس ماہ کی سب سے اہم عبادت کا بدلہ خود اللہ نے اپنے ذمہ لیتے ہوئے فرمایا ۔۔الصوم لی وانا اجزی بہ۔۔ یعنی روزہ خالص میرے لئے ہے چنانچہ اس کا بدلہ بھی میں ہی دونگا ۔
لیکن ظاہر ہے کہ اتنا بڑا انعام یونہی حاصل نہیں ہو سکتا ؛بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارا ہر ہر عمل اور اس ماہ میں کی جانے والی ہماری ہر ہر عبادت حدود شرع کی پابند ہو کیونکہ اس کے بغیر نہ تو کوئی عمل بارگاہ الٰہی میں مقبول ہے اور نہ ہی اللہ کے دربار میں اس کی کوئی اہمیت ہے ،چنانچہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ?نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لئے ایک روزہ رکھے تو اللہ جل شانہ اس کو جہنم سے اتنا دور کر دیگا جتنا کہ ایک کوے کا بچہ اڑتا اڑتا بوڑھا ہو کر مر جائے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس ماہ کے اندر کامیابی انہی لوگوں کا مقدر بنتی ہے جو دربار خداوندی میں خود کو عاجز بنا کر ڈال دیں اور اپنی ذلت و انکساری کا اظہار کر کے خدا سے اپنی مغفرت کی بھیک مانگتے رہیں۔
یہی وجہ کہ آپﷺ رمضان المبارک کی آمد سے قبل عوام الناس کے سامنے اس ماہ کی عظمت و برکت بیان فر مایا کرتے تھے تاکہ ہر مسلمام اس کی وقعت کا احساس اپنے دل میں پیدا کر سکے اور اس کے ہر ہر لمحہ کی ان کے دل میں قدر ہو چنانچہ ایک موقعہ پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔
اے لوگو!تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ حاضر ہو رہا ہے اس مبارک مہینہ کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس ماہ کے روزے اللہ نے فرض کئے ہیں ،اس کی راتوں میں بارگای خداوندی میں کھڑے ہونے کو نفلی عبادت مقرر کر دیا ہے،جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے کوئی غیر فرض عبادت ادا کریگا تو اس کو دوسرے زمانے کی فرضوں کے برابر ثواب ملے گا،یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔
رمضان المبارک کی سعادت کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کیا کم ہے کہ اللہ رب العزت نے اس ماہ میں پورا قرآن مجید نازل فرمایا اور یہ ثابت کردیا کہ اس ماہ کو قرآن سے خاص تعلق ہے ۔ ارشاد باری ہے
شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ہدی للناس
(یعنی رمضان ہی وہ مہینہ جس میں قرآن نازل کیا گیا جو سارے انسانوں کے لئے سر تا سر ہدایت اور ایسی تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے لہٰذا جو شخص اس مہینہ کو پائے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس ماہ میں روزے رکھے)
دوسری طرف اللہ رب العالمین نے روزے کی فرضیت کا اعلان اس انداز مین فرمایا ۔۔اے ایمان والوں!تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاو۔
اس آیت میں اللہ نے روزے کی فرضیت کا اعلان کر نے کے ساتھ ساتھ اس کا مقصد بھی واضح کر دیا کہ تمہارے اوپر روزے کو فرض کرنے کا مقصد تم کو متقی بنانا ہے،تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ انسان دل میں خدا کا خوف جما کر خود کو خدا کی نافرمانی سے بچاتا رہے،اور ویسے روزہ خود بھی کئی اعتبار سے بندہ کے اندر خوف خدا اور تقویٰ کی کیفیت پیدا کر کے اس کو گناہوں سے بچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے ذریعہ بندہ کے دل میں خدا کے حاضر وناظر ہونے کا پختہ یقین پید ا ہوتا ہے ،اور یہی نہیں بلکہ روزہ کا مقصد عظمیٰ انسانی سیرت کے اندر تقویٰ کا ایسا جوہر پیدا کرنا ہوتا ہے جو اس کے قلب وباطن کو روحانیت اور نورانیت سے جلا بخشے ۔
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر روزے سے حاصل کردہ تقویٰ کو بطریق احسن بروئے کار لایا جائے اورآدمی اپنی زندگی کے شب و روز کو بیہودہ باتیں ، بد کاری، جھوٹ، چغل خوری، غیبت،بہتان اور اس قسم کے دوسرے کاموں سے منہ موڑ کر خشوع وخضوع کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ کی طرف متوجہ کرنے کا عہد کر لے تو اس سے ان کی باطنی کائنات میں ایک ایسا ہمہ گیر انقلاب پیدا ہو سکتا ہے جس سے اس کی زندگی کے شب و روز یکسر بدل جائیں اور ہر مصیبت و ابتلاء کے وقت مقام صبر سے بڑھ کر مقام شکر پر فائز ہو جائے، مگر یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس ماہ کی عبادتوں کو ہورے اہتمام سے ادا کیا جائے اور ان کی ادئگی میں کسی بھی قسم کا کوی جھول نہ ہو، کیونکہ کسی بھی عمل کے بارگاہ خداوندی میں قبولیت سے نوازے جانے کے لئے اس کا اس طرح ادا کرنا ضروری ہے کہ اس کا ظاہری ڈھانچہ بھی درست ہو اور اس کا باطن بھی مکمل طور پر صحیح ہو۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اگر کوئی شخص روزے کی حالت میں صبح کرے تو اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور اس کے اعضاء اس کے لئے تسبیح کرتے ہیں ، لیکن آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم سے جہاں دیگر بہت سی عبادات میں کوتاہیاں ہو رہی ہیں وہیں رمضان کی عبادتین بھی اس میں شامل ہیں ، اب عبادتوں نے ایک رسم کی شکل اختیار کر لی ہے ، یہی وجہ کہ ان سے ہماری زندگیوں میں کوئی انقلاب پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہماری زندگی میں اس کے مطلوبہ اثرات مرتب ہوتے ہیں ، ہر سال رمضان کا مہینہ عبادتوں کے نورانی ماحول کو لیکر آتا ہے اور دلوں میں خوشگوار دھڑکنیں چھوڑ کر رخصت ہو جاتا ہے مگر سال کے گیارہ مہینے پھر اسی رفتار بے ڈھنگی کے ساتھ گزر جاتے ہیں جو آگے چل کر ایک دن ہماری ناکامی کا سبب بن جاتی ہے۔
لہٰذااس کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان ان ایام میں خدا کی محرمات سے بچتا رہے اور مامورات پر پابندی سے عمل کرنے کے ساتھ اس بات کا محاسبہ بھی کر تا رہے کہ رمضان کی عبادات کا اس کی زندگی پر کیا اثر پڑرہا ہے۔
رمضان المبارک کے مہینہ کا دوسرا پہلو تعلق مع الخلق کا ہے جس کا اظہار کر تے ہوئے میرے آقا نے فرمایا کہ یہ غمخواری کا مہینہ ہے ۔ روزہ کے ذریعہ اللہ اپنے آسودہ حال بندوں کو ان شکستہ اور بے سر و سامان لوگوں کی زبوں حالی سے کما حقہ ااگاہ کرنا چاہتے ہیں جو اپنے تن و جان کا رشتہ بمشکل بر قرار رکھے ہوئے ہے ، تاکہ ان کے دل میں دکھی اور مضطرب انسانیت کی خدمت کا جذبہ فروغ پائے اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجود میں آسکے جس کی اساس باہمی مروت واخوت ، انسان دوستی اور درد مندی و غمخواری کی لا فانی قدروں پر ہو، روزے کے ایام میں اس احساس کا بیدار ہو جانا روزے کی روح کا لازمی تقاضا ہے اور اس کا فقدان اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ روزے میں روح نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے ۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے روزے کے ایام میں انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ان لوگوں کے احوال پر بھی نظر رکھے جو ایک وقت کی روٹی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ، تاکہ رمضان المبارک کا یہ پہلو بحسن و خوبی انجام پائے اور اس کے لئے اس انعام کا حصول ممکن ہو جس کا خدا نے وعدہ کر رکھا ہے ، ان سب کے علاوہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے باطنی حالات پر بھی توجہ دیتا رہے کہ ایا ان کے روزے سے ان کی باطنی کیفیت میں کوئی تبدیلی آرہی ہے یا نہیں ، ایسی کوئی حالت پیدا ہوتی ہے تو ٹھیک ورنہ ہمیں رضائے الٰہی کے لئے مزید کوشش کرنی چاہئے کیونکہ روزہ انسان کے نفس اور قلب وباطن کو ہر قسم کی آلودگی اور کثافت سے پاک و صاف کر دیتا ہے ،اور مسلسل روزے کے عمل و مجاہدے سے تزکیہ نفس کا عمل تیز تر ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے روح کثافتوں سے پاک ہو کر پہلے سے کہیں زیادہ لطیف تر اور قوی ہو جاتی ہے ،۔
الغرض تزکیۂ روح اور تصفیۂ باطن کا موثر ترین ذریعہ روزہ ہی ہے جس سے محبوب حقیقی کا قرب و وصال نصیب ہوتا ہے اور بندہ ان کیفیات و لذات سے آشنا ہوتا ہے جن کے مقابلے میں دنیا و ما فیہا کی کوئی شی نہیں آسکتی، تو آیئے ہم عہد کریں کہ رمضان کو اسی انداز سے گزارینگے جو اللہ کو پسند آئے، ورنہ اگر ہم نے ان ایام کو بھی غفلت میں گزار دیا تو اسے ہم اپنی بدقسمتی کے سوا کچھ قرار نہیں دے سکتے۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار پیام انسانیت ایجو کیشنل اینڈ ویلفئر ٹرسٹ کے صدر ہیں )