۔ملت ٹائمز نے اس موضوع پر ابھی ابتدا کی ہے ۔ عام انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ملت ٹائمز اس سمت میں مزید منظم انداز میں کام کرے گا
خبر در خبر(607)
شمس تبریز قاسمی
ہندوستان میں ہونے والے عام انتخابات اور اسمبلی انتخابات کے دوران اکثر حلقوں میں مسلمان کنفیوزن کے شکار رہتے ہیں ۔ خاص طور پر جن حلقوں میں سیکولر پارٹیوں کے علاوہ علاقائی طور پر کوئی مضبوط مسلمان امیدوارمیدان میں آجاتے ہیں وہاں کے مسلمان سب سے زیادہ کنفیوزن کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اکثر ان کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتاہے وہ کیا کریں یہی وجہ ہے کہ بیشتر ایسے حلقے جہاں مسلم ووٹس تیس سے چالیس فیصد ہوتے ہیں وہاں سے بی جے پی امیدوار جیت حاصل کرلیتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ مسلم ووٹوں کا انتشار ہوتاہے ۔ انتخابات 2019 میں بھی لوک سبھا کی کئی سیٹوں کو لیکر کنفیوز ن برقرار ہے ۔ مسلم لیڈرشپ والی پارٹیوں کی وجہ سے وہاں کے مسلمان پش وپیش میںمبتلا ہیں کہ ہم کیا کریں کسے ووٹ دیں؟ ۔ملت ٹائمز نے ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے گذشتہ30مارچ کو جامعہ نگر کے ہوٹل ریور میں ایک کانکلیو کا انعقاد کیا جس میں مختلف شعبہائے حیات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی اور اس بات پر بحث ہوئی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو سیاسی بالادستی کیسے قائم ہوسکتی ہے ۔اقتدار میں حصہ داری کی صحیح شکل کیا ہوگی اور 2019 کے عام انتخابات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیئے ۔ان کا سیاسی لائحہ عمل کیا ہونا چاہیئے ۔
اس کانکلیو کے تقریبا سبھی شرکاءنے اس بات کا شدت سے احساس کیا کہ گذشتہ ستر سالوں میں ہم مختلف سیکولر پارٹیوں کا حصہ بن کررہے ۔ کیرالااو رجموں وکشمیر کے علاوہ کہیں بھی مسلمانوں نے سیاسی قیادت تشکیل نہیں دی ۔ کانگریس کا ساتھ دینے کا علاوہ اور جن لوگوں نے بھی پارٹی بنائی مسلمانوں نے ان کا ساتھ دیکر انہیں اقتدار سونپنے کا فریضہ انجام دیادوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں نے ہمیشہ قلی کا کردار نبھایا ۔کبھی کسی کو کرسی اقتدار پر بیٹھایا کسی کو اتارا خود بیٹھنے اور سفر کرنے کے بارے میں نہیں سوچا ۔
2019 کے عام انتخابات میں مسلمانوں کی پالیسی یہ ہونی چاہیئے کہ مسلم اکثریتی حلقوں سے کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کے امیدواروں کو پارلیمنٹ میں بھیجنے کے بجائے ہم قابل اعتماد اور ملک وملت کی تعمیر وترقی کیلئے سرگر م مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں کوووٹ دیں ،ان کے نمائندوں کو جتائیں اور سیکولر پارٹیوں کو احساس دلائیں کہ آپ اپنے اتحاد میں ان پارٹیوں کو بھی شامل کریں جیساکہ یوپی بہار سمیت متعدد ریاستوں میں کمیونٹی بیس علاقائی پارٹیوں کو کانگریس یا دیگر پارٹیوں نے اتحاد کا حصہ بنایاہے یا خود کانگریس کیرالہ میں مسلم لیگ اور جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس وغیرہ کے ساتھ اتحاد کرتی ہے ۔
یاد رکھیں ! کانگریس یا کسی اور پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے والے نمائندے عوام اور مسلمانوں کے حق میں اتنے وفادار نہیں ثابت ہوسکتے ہیں جتنے کسی آزاد پارٹی کے امیدوار موثر اور وفادار ہوتے ہیں کیوں کہ وہاں پارٹی ٹائم لائن کی اتباع اوراس طرح کی کیسی ساری مجبوریاں ہوتی ہے جبکہ آزادپارٹیوں کے نمائندے ایسی شرطوں سے آزاد ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ سولہویں لوک سبھا کی پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ سوال کرنے والے صرف دو مسلم ایم پی ہیں پہلے نمبر پر بیرسٹر اسد الدین اویسی اور دوسر ے نمبر پر مولانا بدرالدین اجمل ۔کیوں کہ یہ دونوں ایک آزاد پارٹی سے تھے ،اگر یہ بھی کسی اور پارٹی سے جیت کر آئے ہوتے تو شاید ایسا نہیں کرپاتے بلکہ بعض اہم موقع پر بھی ان کی زبان زبردستی بندکرادی جاتی جیساکہ طلاق بل پر بحث کے دوران مولانا اسرارالحق قاسمی رحمة اللہ علیہ کے ساتھ ہوا ۔ اتر پردیش اسمبلی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جہاں سماج وادی پارٹی سے 60 مسلم ایم ایل اے ہونے کے باوجود2013 کے مظفر نگر فساد اور داردی میں اخلاق کے بہیمانہ قتل پر کچھ بول نہیں پائے ۔ اگر اتنی بڑی تعداد کسی علاحدہ پارٹی کی ہوتی تو حکومت جھکنے پر مجبور ہوجاتی ۔ تلنگانہ اور مہاراشٹر ا جیسی ریاستیں ہمارے لئے ایک نظیر ہے جہاں ایم آئی ایم کے چند ایم ایل اے حکومت پر دباﺅبنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور بیباکی کے ساتھ مسلم مسائل کو اٹھاتے ہیں ۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ الائنس کی وجہ سے حکومت میں حصہ داری ملتی ہے اور بہت ساری شرطیں بھی حکومت کو ماننی پڑتی ہے۔ بعض دفعہ صرف ایک سیٹ جیتنے والے سو سیٹ والے پر بھاری پڑجاتے ہیں ۔ یوپی اے کی گذشتہ دس سالہ حکومت اور این ڈی اے کی موجودہ حکومت میں کئی ایسے نام ہیں جو صرف دوسیٹوں پر کامیابی ملنے کے باوجود وزیر بن گئے ۔
کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیاں بھی سیاسی طور پر مسلمانوں کو ابھرنے نہیں دینا چاہتی ہے ۔ وہ ماتحت رکھ کر اپنے ایجنڈے کے مطابق صرف مسلم ووٹ لینے کی کوشش کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ آسام میں کانگریس نے پانچ سالوں تک یقین دہانی کرانے کے باوجود مولانا اجمل کی قیادت والی آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کو اتحاد میں شامل نہیں کیا ۔ یوپی میں سماج وادی پارٹی نے پیس پارٹی کو ہمیشہ خواب دکھایا لیکن جب الائنس کو حتمی شکل دیاگیا تو پیس پارٹی کو باہر کار استہ دکھادیا ۔
2019 عام انتخابات بہت اہم ہیں ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ الیکشن تاریخی اہمیت کا حامل ہوگیاہے ۔اسے آئین کے تحفظ کی لڑائی کا بھی نام دیاجارہاہے اور اس الیکشن میں کسی کو ہرانے اور کسی کو جتانے کا فیصلہ بھی مسلمانوں کوہی کرنا ہے ۔دوسری طرف یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ آسام میں یو ڈی ایف ان تین سیٹوں پر بھی اپنے امیدوار واپس لے لیں جہاں اس کے موجودہ ایم پی ہیں ۔ یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین کسی کو ہرانے کیلئے سیاست سے دستبردار ہوجائے ۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے امیدوار میدان چھوڑ دیں ۔ ایس ڈی پی آئی لوک سبھا انتخابات میں حصہ نہ لے جبکہ یہ پارٹیاں ہندومسلم سب کو ساتھ لیکر چلتی ہے ۔ انتخابی عمل کا حصہ ہیں ۔ کئی ایک کا کچھ علاقوں میں اثر روسوخ بھی ہے اور یہ بھی اسی طرح ایک سیکولر اور سبھی طبقات کی نمائندگی کرنے والی پارٹیاں ہیں جس طرح آر جے ڈی ،بی ایس پی ،جے ڈی یو وغیرہ ہے ۔
ان تمام باتوں کوسامنے رکھتے ہوئے ملت ٹائمز کانکلیومیں علماءودانشوران نے یہ راہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کچھ حلقوں پر مسلم نمائندوں کے بجائے مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں کے نمائندے کو جتانے کاکام کیاجائے ان پر بھروسہ کیاجائے اور سترسالوں میں ایک مرتبہ کچھ سیٹوں پر یہ تجربہ کیاجائے۔
مثال کے طور پر آسام کی تین لوک سبھا سیٹوں پر اے آئی یو ڈی ایف کے نمائندوں کو ووٹ دیاجائے جہاں سے وہ لڑرہے ہیں ۔ کشن گنج ،اورنگ آباداور دیگر حلقوں پر جہاں مجلس اتحاد المسلمین اور ان کے اتحاد ی امیدوار میدان میں ہیں اسے کامیاب بنایاجائے ۔ بنگال کی جنگی پور ہ سیٹ پر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا پر بھروسہ کیاجائے ۔اسی طرح کچھ دیگرحلقوں میں بھی مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں کے نمائندوں کو سپورٹ کیاجائے بقیہ تمام سیٹوں پر سیکولر پارٹیوں کو ہمیشہ کی طرح مسلمان ووٹ دیں ۔
چند جگہوں پر ایسے امیدواروں کی جیت ملک اور عوام کے حق میں ضروری ہے ۔اگر کچھ جگہوں پرمذکورہ سیکولر پارٹیوں کی جیت ہوجاتی ہے تو کل ہوکر سیکولر پارٹیاں بھی ان کی طاقت کو محسوس کرتے ہوئے اتحاد کرنے پر مجبور ہوگی ۔آسام میں اس مرتبہ بھی یو ڈی ایف کی تین سیٹیں نکل گئی تو آئندہ مرتبہ کانگریس کیلئے اتحاد کے بغیر کوئی اور راہ نہیں بچے گی کیوں کہ یہ میسج کنفر م ہوجائے گا کہ بہار اور یوپی کی طرح آسام میں بھی ایک علاقائی پارٹی مضبوط ہوگئی ہے اور ہمارا ووٹ بینک اب کہیں اور ٹرانسفر ہوگیاہے ۔
سترسالوں میں مسلمانوں نے سیکولر اتحاد کا حصہ بن کر سیاست کی ۔ آر جے ڈی ، جے ڈی یو ، ایس پی ، جے ڈی ایس ،بی ایس پی جیسی پارٹیاں بناکر سیاست کے میدان میں تجربہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔اب یہ روایت بدلنے ہوگی ۔ ایک نیا تجربہ کرنا ہوگا اور سیکولر پارٹیوں کو اتحاد کرنے پر مجبور کرنا ہوگا ۔ یہ کام ابھی سے اور اسی عام انتخابات سے ہمیں کرنا ہے ۔ رواں انتخابات میں چند سیٹوں پر رسک لیکرمذکورہ پارٹیوں کے امیدواروں کوپارلیمنٹ میں پہونچانا ہے ۔ملت ٹائمز نے اس کانکلیو کے یہ ذریعہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ بیرسٹر اسدالدین اویسی کی طرح ہمیں کچھ اور نمائندے پارلیمنٹ میں چاہیئے اور ایسی صلاحیت کے حامل ملک کے مختلف حلقوں سے انتخاب لڑرہے ہیں جنہیں کامیاب بنا ناہمارا قومی اور ملکی فریضہ ہے ۔یہ بات ہمیشہ ذہن نشیں رہنی چاہیئے کہ جس طرح سماج وادی پارٹی ،بہوجن سماج وادی پارٹی ،راشٹریہ جنتادل وغیرہ سبھوں کی پارٹی کہلاتی ہے اسی طرح یو ڈی ایف ،ایس ڈی پی آئی ،ایم آئی ایم وغیرہ بھی سبھی ہندوستانیوں کی پارٹی ہے ۔سیکولر پارٹیوں کی فہرست میں شامل ہے ۔
ملت ٹائمز کانکلیو کی تمام ویڈیوز ملت ٹائمز کے یوٹیوب پر نشرکردی گئی ہے ۔ یہاں دیئے گئے لنک پر کلک کرکے تمام کاروائی دیکھی جاسکتی ہے ۔ملت ٹائمز نے اس موضوع پر ابھی ابتدا کی ہے ۔ عام انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ملت ٹائمز اس سمت میں مزید منظم انداز میں کام کرے گا ۔اس پورے مسئلے کو سمجھنے کیلئے ہم اپنے قارئین کو معروف عالم دین مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کا انٹرویو دیکھنے کا مشورہ دیں گے جسے حال ہی میں ملت ٹائمز نے یوٹیوب پر نشر کیاہے اور ہمارا یہ عزم ہے کہ یہ تحریک الیکشن کے نتائج آنے کے بعد ہم منظم انداز میں پوری مضبوطی کے ساتھ شروع کریں گے ۔
stqasmi@gmail.com