محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض
ان دنوں سوشل میڈیا پر کسی بھی پیغام کو فارورڈ کرنے کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے حتی کہ اس کو خود پڑھنے یا اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے کہ پیغام صحیح معلومات پر بھی مشتمل ہے یا نہیں۔ نیز عصر حاضر کے مکاتب فکر کے درمیان بعض اختلافی مسائل میں بعض حضرات حد سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ حدیث: (رَمَضَان: اَوَّلُہُ رَحْمَۃٌ وَاَوْسَطُہُ مَغْفِرَۃٌ وَآخِرَہُ عِتْقٌ مِّنَ النَّار) کے متعلق محدثین کی ایک جماعت نے حدیث کی سند میں کمزوری کی وجہ سے ضعیف کہا ہے، بلکہ بعض علماء نے منکر تک کہا ہے، جبکہ تیسری ہجری میں پیدا ہونے والے بعض محدثین نے فضائل پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس حدیث کو تسلیم کرکے اپنی مشہور ومعروف کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ لیکن چونکہ یہ حدیث برصغیر کے بعض علماء نے اپنی کتابوں میں تحریر کررکھی ہے، اس وجہ سے بعض حضرات اس کے متعلق کافی سخت الفاظ استعمال کرکے سوشل میڈیا پر پیغام فارورڈ کررہے ہیں۔
جہاں تک رمضان کے مبارک مہینہ میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کے نازل ہونے، بندوں کے گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے چھٹکارہ کا تعلق ہے، تو یہ تینوں فضیلتیں احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں، جس پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کا نازل ہونا، بندوں کے گناہوں کی مغفرت کا ہونا اور بندوں کا جہنم سے آزاد کیا جانا باوجودیکہ پورے رمضان سے متعلق ہیں، لیکن کیا رمضان کے تین عشروں میں سے ہر عشرہ کی خصوصی اہمیت وفضیلت بھی ہے تو اس سلسلہ میں مذکورہ بالا حدیث سے یہ رہنمائی ملتی ہے، اگرچہ ماہ رمضان کا ایک ایک لمحہ ان تینوں فضیلتوں کو شامل ہے۔ یہ مذکورہ بالا روایت عصر حاضر کے کسی عالم دین نے اپنی طرف سے تحریر نہیں کردی ہے کہ اس پر سخت الفاظ استعمال کرکے فتوے لگائے جائیں، بلکہ متعدد محدثین وفقہاء وعلماء نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ میں اس موقع پر صرف بعض بڑے محدثین کے ذکر پر اکتفاء کرتا ہوں۔ امام ابن خزیمہ نیساپوری ؒ (۲۳۳ھ۔۳۱۱ھ) نے حدیث کی مشہور ومعروف کتاب (صحیح ابن خزیمہ ۳/۱۹۱) میں ، امام ابوبکر بغدادیؒ (جو ابن ابی الدنیا کے نام سے معروف ہیں) (۲۰۸ھ۔۲۸۱ھ) نے اپنی مشہور کتاب (فضائل رمضان) میں، امام ابن شاہین بغدادی ؒ (۲۹۷ھ۔۳۸۵ھ) نے اپنی کتاب (فضائل شہر رمضان) میں، مشہور محدث امام بیہقی ؒ (۳۸۴ھ۔۴۵۸ھ) نے حدیث کی مشہور کتاب (شعب الایمان ۳۳۳۶ اور فضائل اوقات ۳۷) میں، امام ابوالقاسم اصبہانی ؒ (۴۵۷ھ۔۵۳۵ھ) (جو قوام السنہ کے نام سے معروف ہیں) نے اپنی مشہور کتاب (کتاب الترغیب والترہیب ۱۷۵۳) میں، امام بغوی ؒ (۴۳۳ھ۔۵۱۰ھ) (جو محی السنہ کے لقب سے مشہور ہیں) نے اپنی مشہور تفسیر قرآن (معالم التنزیل ۱/۲۰۲) میں ذکر کی ہے۔ اختصار کے پیش نظر میں نے صرف چند محدثین کے نام ان کی کتابوں کے حوالے کے ساتھ ذکر کردئے ہیں، ان کے علاوہ بھی بڑے بڑے محدثین نے فضائل پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس روایت کو اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث دیگر کتابوں میں مذکور ہے، اگرچہ ان کی سند میں ضعف ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رمضان کی فضیلتوں کے متعلق متعدد صحیح احادیث موجود ہیں، لہٰذا ہمیں مذکورہ بالا حدیث کو ذکر کرنے سے احتیاط کے ساتھ کام لینا چاہئے۔ نیز اگر علماء نے ذکر کیا ہے تو ہمیں بہت زیادہ شدت سے اس کی تردید نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ایسے ایسے محدثین نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ ان کی علمی خدمات سے ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی امت مسلمہ کے تمام مکاتب فکر استفادہ کررہے ہیں۔ رمضان میں اللہ کی رحمتوں کا نازل ہونا، گناہوں سے مغفرت کا ہونا اور جہنم سے چھٹکارہ کا فیصلہ ہونا، صحیح احادیث سے ثابت ہیں، البتہ ہر عشرہ کی خصوصی فضیلت جس کا اس حدیث میں ذکر ہوا ہے، سے کوئی شخص اختلاف تو کرسکتا ہے لیکن اس روایت کے ذکر کرنے والے پر سخت الفاظ استعمال کرکے فتویٰ لگانا جائز نہیں ہے کیونکہ بہرحال بڑے بڑے محدثین نے فضائل پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مذکورہ حدیث کو تسلیم کیا ہے۔اگر کوئی شخص اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا ہے تو وہ اپنے بیانات اور کتابوں میں ذکر نہ کرے، لیکن اپنی رائے اور فیصلہ کو آخری فیصلہ سمجھ کر دوسروں پر تھوپنا صحیح نہیں ہے۔ بعض حضرات نے لوگوں کی سہولت کے لئے ہر عشرہ کی الگ الگ دعائیں بھی تحریر کردی ہے، لیکن طواف اور سعی کے چکر کی طرح ہر عشرہ کی خصوصی دعا یا رمضان کے ہر روزہ کی خاص دعا حضور اکرم ﷺ سے ثابت نہیں ہے، بلکہ آپ جو چاہیں اور جس زبان میں چاہیں دعائیں مانگیں۔یاد رکھیں کہ اصل دعا وہ ہے جو دھیان، توجہ اور انکساری سے مانگی جائے چاہے جس زبان میں ہو۔