عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے : اَلّٰلہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔ اے اللہ ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا۔
افطار کے بعد کی دعا : عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو فرماتے : ذَہبَ الظَّمَأُ ، وَابتَلَّت العرُوْق، وَ ثَبَت الاَجرُ اِنْ شَاءَ اللّٰہ۔ (ابوداؤد) پیاس بچھ گئی اور رگیں آسودہ ہوگئیں اور انشاء اللہ اجر ثابت ہوگیا۔
جب کسی کے یہاں افطاری کرے تو یہ دعا پڑھے: اَفْطَرَعِنْدَ کُمُ الصَّآءِمُوْنَ وَ اَکَلَ طَعَامَکُمُ الْاَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمُ الْمَلآءِکَۃُ۔
افطار کرتے رہیں تمہارے یہاں روزہ دار اور کھاتے رہیں تمہارا کھانا نیک لوگ اور دعائیں کرتے رہیں تمہارے لئے اللہ کے فرشتے۔ (ابوداؤد و ابنِ ماجہ)
روزہ دار کو کوئی شخص گالی دے تو وہ کہے؟ اِنِّیْ صَآ ءِمٌ، اِنِّیْ صَآ ءِمٌ۔ میں روزہ سے ہوں، میں روزہ سے ہوں۔(بخاری و مسلم)
افطار میں کھانا کم کھایا جائے تاکہ روزہ کے مقاصد حاصل ہوں۔ آج کل لوگ اس قدر مبالغہ اور اسراف سے کام لینا شروع کردیئے ہیں کہ روزہ کا اصل فائدہ اور اس کی اصلاحی اور تربیتی مقصد فوت ہوگیا ہے ۔ امام غزالی ؒ نے اس نکتہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : 249 پانچواں ادب یہ ہے کہ افطار کے وقت حلال غذا میں بھی احتیاط سے کام لے اور اتنا نہ کھائے کہ اس کے بعد گنجائش ہی باقی نہ رہے، اس لئے کہ حلق تک بھرے ہوئے پیٹ سے بڑھ کر مبغوض اللہ کے نزدیک کوئی بھری جانے والی چیز نہیں ہے، اگر روزہ دار افطار کے وقت دن بھر کی تلافی کر دے اور جو دن بھر کھانے والا تھا، وہ اس ایک وقت میں کھالے تو دشمنِ خدا پر غالب آنے اور شہوت کو ختم کرنے میں روزہ سے کیا مدد مل سکے گی؟ یہ عادتیں مسلمانوں میں اتنی راسخ اور عام ہو چکی ہیں کہ رمضان کے لئے بہت پہلے سے سامانِ خوراک جمع کیا جاتا ہے، اور رمضان کے دنوں میں اتنا اچھا اور نفیس کھانا کھایا جاتا ہے ، جو اور دنوں میں نہیں کھایا جاتا، روزہ کا مقصود تو خالی پیٹ رہنا اور خواہشات نفس کو دبانا ہے، تاکہ تقویٰ کی صلاحیت پیدا ہوسکے، اب اگر معدہ کو صبح و شام تک کھانے پینے سے محروم رکھاجائے اور شہوت اور بھوک کو خوب امتحان میں ڈالنے کے بعد انواع و اقسام کے کھانوں سے پیٹ بھر لیا جائے تو نفس کی خواہشات اور لذتیں کم نہ ہوں گی اور بڑھ جائیں گی، بلکہ ممکن ہے کہ بہت سی ایسی خواہشات جو ابھی تک خوابیدہ تھیں، وہ بھی بیدار ہوجائیں، رمضان کی روح اور اس کا راز ان طاقتوں کو کمزور کرنا ہے، جن کو شیاطین اپنے وسائل کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور یہ بات تقلیل غذا ہی سے حاصل ہوگی، یعنی یہ کہ شام کو اتنا ہی کھائے جتنااور دنوں میں کھاتا تھا، اگر کوئی دن بھر کا حساب لگاکر ایک ہی وقت میں کھالے تو اس سے روزہ کا فائدہ حاصل نہ ہوگا۔،
249 بلکہ یہ بھی آداب میں داخل ہے کہ دن میں زیادہ نہ سوئے تاکہ بھوک پیاس کا کچھ مزہ معلوم ہو، قویٰ کے ضعف کا احساس ہو، قلب میں صفائی پیدا ہو، اسی طرح ہر شب کو اپنے معدہ کو اتنا ہلکا رکھے کہ تہجد اور اوراد میں مشغولی آسان ہو اور شیطان اس کے دل کے پاس منڈلانہ سکے اور اس صفائی قلب کی وجہ سے عالم قدس کا دیدار اس کے لئے ممکن ہو ۔ (ملت ٹائمز)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے : اَلّٰلہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔ اے اللہ ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا۔
افطار کے بعد کی دعا : عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو فرماتے : ذَہبَ الظَّمَأُ ، وَابتَلَّت العرُوْق، وَ ثَبَت الاَجرُ اِنْ شَاءَ اللّٰہ۔ (ابوداؤد) پیاس بچھ گئی اور رگیں آسودہ ہوگئیں اور انشاء اللہ اجر ثابت ہوگیا۔
جب کسی کے یہاں افطاری کرے تو یہ دعا پڑھے: اَفْطَرَعِنْدَ کُمُ الصَّآءِمُوْنَ وَ اَکَلَ طَعَامَکُمُ الْاَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمُ الْمَلآءِکَۃُ۔
افطار کرتے رہیں تمہارے یہاں روزہ دار اور کھاتے رہیں تمہارا کھانا نیک لوگ اور دعائیں کرتے رہیں تمہارے لئے اللہ کے فرشتے۔ (ابوداؤد و ابنِ ماجہ)
روزہ دار کو کوئی شخص گالی دے تو وہ کہے؟ اِنِّیْ صَآ ءِمٌ، اِنِّیْ صَآ ءِمٌ۔ میں روزہ سے ہوں، میں روزہ سے ہوں۔(بخاری و مسلم)
افطار میں کھانا کم کھایا جائے تاکہ روزہ کے مقاصد حاصل ہوں۔ آج کل لوگ اس قدر مبالغہ اور اسراف سے کام لینا شروع کردیئے ہیں کہ روزہ کا اصل فائدہ اور اس کی اصلاحی اور تربیتی مقصد فوت ہوگیا ہے ۔ امام غزالی ؒ نے اس نکتہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : 249 پانچواں ادب یہ ہے کہ افطار کے وقت حلال غذا میں بھی احتیاط سے کام لے اور اتنا نہ کھائے کہ اس کے بعد گنجائش ہی باقی نہ رہے، اس لئے کہ حلق تک بھرے ہوئے پیٹ سے بڑھ کر مبغوض اللہ کے نزدیک کوئی بھری جانے والی چیز نہیں ہے، اگر روزہ دار افطار کے وقت دن بھر کی تلافی کر دے اور جو دن بھر کھانے والا تھا، وہ اس ایک وقت میں کھالے تو دشمنِ خدا پر غالب آنے اور شہوت کو ختم کرنے میں روزہ سے کیا مدد مل سکے گی؟ یہ عادتیں مسلمانوں میں اتنی راسخ اور عام ہو چکی ہیں کہ رمضان کے لئے بہت پہلے سے سامانِ خوراک جمع کیا جاتا ہے، اور رمضان کے دنوں میں اتنا اچھا اور نفیس کھانا کھایا جاتا ہے ، جو اور دنوں میں نہیں کھایا جاتا، روزہ کا مقصود تو خالی پیٹ رہنا اور خواہشات نفس کو دبانا ہے، تاکہ تقویٰ کی صلاحیت پیدا ہوسکے، اب اگر معدہ کو صبح و شام تک کھانے پینے سے محروم رکھاجائے اور شہوت اور بھوک کو خوب امتحان میں ڈالنے کے بعد انواع و اقسام کے کھانوں سے پیٹ بھر لیا جائے تو نفس کی خواہشات اور لذتیں کم نہ ہوں گی اور بڑھ جائیں گی، بلکہ ممکن ہے کہ بہت سی ایسی خواہشات جو ابھی تک خوابیدہ تھیں، وہ بھی بیدار ہوجائیں، رمضان کی روح اور اس کا راز ان طاقتوں کو کمزور کرنا ہے، جن کو شیاطین اپنے وسائل کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور یہ بات تقلیل غذا ہی سے حاصل ہوگی، یعنی یہ کہ شام کو اتنا ہی کھائے جتنااور دنوں میں کھاتا تھا، اگر کوئی دن بھر کا حساب لگاکر ایک ہی وقت میں کھالے تو اس سے روزہ کا فائدہ حاصل نہ ہوگا۔،
249 بلکہ یہ بھی آداب میں داخل ہے کہ دن میں زیادہ نہ سوئے تاکہ بھوک پیاس کا کچھ مزہ معلوم ہو، قویٰ کے ضعف کا احساس ہو، قلب میں صفائی پیدا ہو، اسی طرح ہر شب کو اپنے معدہ کو اتنا ہلکا رکھے کہ تہجد اور اوراد میں مشغولی آسان ہو اور شیطان اس کے دل کے پاس منڈلانہ سکے اور اس صفائی قلب کی وجہ سے عالم قدس کا دیدار اس کے لئے ممکن ہو ۔ (ملت ٹائمز)