آخری مرحلہ تک یہ کوشش جاری رہے 

نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم 

عام انتخابات تقریباً مکمل ہونے والے ہیں۔ چھ مرحلوں کے انتخابات ہوچکے ہیں۔ آخری مرحلے کی پولنگ 19مئی کو باقی رہ گئی ہے اس کے بعد 23 مئی کو نتیجہ ہمارے سامنے ہوگا۔ نتیجہ کیسا ہوگا ،کس کی ہار اور کس کی جیت ہوگی۔ ہندوستان کو ایک نئی سرکار ملے گی یا پرانے لوگ ہی اقتدار میں برقرار رہیں گے اس حوالے سے 23 مئی کو سب کچھ صاف ہوجائے گا۔ تجزیے اور سروے مسلسل آر ہے ہیں ۔اپنے اپنے اعتبار سے سبھی بتارہے ہیں کہ 23 مئی کو کیا ہوگا؟۔ ملک کو کیسی سرکارملے گی ؟۔ حکومت کی تشکیل میں کن لوگوں کو رول ہوگا؟ ۔ ان سب کے درمیان ابھی آخری مرحلے کا الیکشن باقی ہے جس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور ایک مرتبہ پھر یہ جائزہ لینا اور جاننا ضروری ہے کہ پانچ سال کیسا رہا۔ کیوں یہ پانچ سال ہندوستان سمیت دنیا بھر میں موضوع بحث بنا رہا۔ ان پانچ سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ ملک سمیت پورے عالم میں ہندوستان کے تئیں تشویشات بڑھ گئی ہیں ۔

گذشتہ پانچ سالوں کے دوران پورے ملک میں خوف ، دہشت اور نفرت کا ماحول حاوی رہا ۔ ایسے ماحول کی حکومتی سربراہوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کی گئی۔ نفرت پسندوں اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ سرکاری سطح پر شدت پسند عناصر کی پشت پناہی ہوئی۔ ملک میں لاء اینڈ آڈر کا فقدان رہا ۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی حکومت دیکھنے کو ملی۔ مسلمانوں ، دلتوں ، آدی واسیوں اور کمزوروں کا سرے عام قتل کیا گیا ۔انہیں مارا گیا۔ کبھی کسی چیز کا بہانا بناکر اور کبھی بغیر کسی بہانا کہ بھیڑ نے قتل کردیا ۔ کرائم کی خود ہی ویڈیو بنائی اور پھر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرکے ثبوت فراہم کیا کہ ہم نے یہ ایسا کیا ہے لیکن اس کے باوجود انتظامیہ اور حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور اس کے سدباب کیلئے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ 

ملک میں کسانوں پر حملہ ہوا ۔ ان کے مسائل حل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ چند مخصوص مالداروں ، تاجروں اور کارپوریٹ گھرانے کیلئے خزانہ کی پوری تجوری کھول دی گئی۔ ان کی بزنس کو مزید فروغ دینے کیلئے حکومت نے معاہدہ تبدیل کردیا ۔ نوٹ بندی جی ایس ٹی سمیت کئی اہم فیصلہ لیا لیکن غریب کسانوں کی بھلائی ،بہتری اور کامیابی کیلئے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ مجبور ہوکر جب ملک بھر کے کسانوں نے احتجاج شروع کیا ۔ اپنا حق لینے کیلئے دھرنا دیا تو حکومت نے ان پر لاٹھیا ں برسادی۔ انہیں خوف زدہ کرکے بے کسی اور مجبوری کے عالم میں رہنے پر ہی مجبور کردیا۔

 ہندوستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب آئینی ادارے شدید بحران سے دوچار ہوئے ہیں ۔ سپریم کورٹ اور عدلیہ کے دیگر اداروں کی آزادی خطرے میں ہے ۔سپریم کورٹ اس کا اظہار کرچکا ہے ۔ عدلیہ پر دباؤ کی متعدد شکایتیں بھی سامنے آچکی ہے حکومت عدلیہ کی آزاد ی سلب کررہی ہے۔ اسے اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے پر مجبور کررہی ہے۔سی بی آئی بمقابلہ سی بی آئی کی لڑائی کا منظر بھی ہندوستان نے ان پانچ سالوں میں دیکھ لیا ۔ سی بی آئی کے نمبر ون اور نمبر دو ڈائریکٹر نے ایک دوسرے پر بدعنوانی کا الزام عائد کیا اور پھر حکومت نے شب خون مارکر ایک ایماندار افسر کو برطرف کرکے اپنی مرضی کا فیصلہ نافذ کردیا۔ آر بی آئی کی آزادی سلب کرنے کی کوشش ہوئی اور اس کے نظام میں مودی حکومت نے مکمل مداخت کی۔ الیکشن کمیشن ایک آزاد ادارہ ہے لیکن یہاں بھی معاملہ صاف اور شفاف نہیں ہے ۔حکومتی دباؤ مکمل طور پر عیاں ہو رہا ہے اور ایسا لگ رہاہے کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کی بی ٹیم بن کر اسے فائدہ پہونچانے کا کام کررہی ہے۔ الیکشن کی تاریخوں کا جس طرح اعلان ہوا ہے اس نے واضح کردیاہے کہ کسی پارٹی کا دباؤ ہے یہ پھر اسے فائدہ پہونچانے کی کوشش ہے ۔ فوج کا بھی استعمال کر کے مودی سرکار نے اپنے سیاسی فائدہ کیلئے دنیا بھر میں ہندوستان کا سر جھکادیا ہے۔ ہر ملک کی ایک آرمی ہوتی ہے ۔سرحدوں کی حفاظت اور بیرونی حملوں سے یہی فوج ہمیں بچاتی ہے۔ اسے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ ہندوستان کی فوج روزاول سے اپنا فریضہ بحسن وخوبی نبھارہی ہے اور ملک کی طرف اٹھنے والی ہر ایک میلی آنکھ کا ہمارے نوجوانوں نے سخت جوا ب دیا ہے لیکن 2019 میں نریندر مودی صاحب فوج کی بہادری ،شجاعت اور جرأت کو بھی اپنی کامیابی شمار کراتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ ہماری وجہ سے ہوا۔ یہ فوج اور ان کے اختیارات کی توہین ہے۔ فرائض منصبی پر سوالیہ نشان لگانے کے مترداف ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں ایسے واقعات کی طویل فہرست ہے جس میں حکومت نے ملک کے آئینی اور خود مختار اداروں پر حملہ کیا ہے۔ اس کی روح پامال کی گئی ہے۔ انہیں آئین میں حاصل شدہ اختیارات اور حقوق کے مطابق کام کرنے سے روکا گیا ہے۔

معاشی اعتبار سے ملک کنگال ہوگیاہے۔ جی ڈی پی کی شر ح میں کمی آچکی ہے۔ روزگار کا شدید بحران ہے۔ تعلیمی بجٹ کم ہوچکا ہے۔ مہنگائی آسمان توڑنے لگی ہے۔ ریلوے کا کرایہ ضرور بڑھاہے لیکن سہولیات ندارد ہیں۔ خواتین کی عزت اور عصمت غیر محفوظ ہوئی ہیں۔ عورتوں اور بچوں کے ساتھ کرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ قتل وغارت گری بڑھی ہے اور ہندوستان کی دنیا کے سامنے یہ تصویر بن گئی ہے کہ ہندوستان خواتین کیلئے ایک غیر محفوظ ملک ہے ۔ اقلیتوں کو یہاں بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ مسلمانوں، دلتوں، آدی واسیوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے انہیں طرح طرح کی اذیتوں سے دوچار کیا جاتا ہے۔ آئین اور قانون نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ہے۔ لاء اینڈ آڈر نہیں ہے۔ ایسے حالات ملک میں پہلی مرتبہ پیدا ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے ملک کے عوام میں بی جے پی کی موجودہ حکومت کے خلاف غم و غصہ اور ناراضگی ہے ۔ 

بی جے پی کی حکومت اس سے پہلے بھی ہندوستان میں رہ چکی ہے ۔ اٹل بہار ی واجپئی وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے ہیں لیکن دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ بی جے پی حکومت میں جب اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم تھے تو عوام میں آئین کے تئیں بے چینی نہیں تھی۔ ملک کے دستور اور آئین پر عوام کا اعتماد برقرار تھا۔ انہیں اس کا بات بھروسہ تھا کہ عدلیہ آزاد ہے۔ الیکشن کمیشن کسی کا طرفدار نہیں ہے۔ سی بی آئی اور اس طرح کی دیگر ایجنسیاں سرکاری دباؤ سے محفوظ ہے۔ ملک میں قانون کی حکمرانی ہے۔ لاء اینڈ آڈر برقرار ہے۔ ان دنوں خوف اور دہشت کا معاملہ بھی نہیں تھا۔ ہر طرح کے خوف، تشدد اور ظلم و زیادتی سے آزاد ہوکر عوام اپنے شب و روز گزرار ہے تھے۔ واجپئی کے زمانے میں جو لوگ سرکار چلارہے تھے انہیں بھی ملک کے دستور پر بھروسہ تھا۔ وہ بابا امبیڈکر قیادت میں تشکیل پانے والے آئین کے مطابق ہی حکومت چلانا چاہتے تھے لیکن بی جے پی کی موجودہ حکومت میں اس طرح کی کوئی خوبی اب نہیں پائی جاتی ہے۔ یہاں دستور پر بالکل بھروسہ نہیں ہے۔ آئینی اداروں کی خود مختاری پر حملہ اولین ایجنڈا ہے۔ مسلمانوں، دلتوں، آدی واسیوں اور دیگر اقلیتوں کو بنیادی حقوق سے محروم کرنا اور منو اسمرتی کا نفاذ بنیادی مقصد بنا ہوا ہے جس سے عوام میں شدید بے چینی ، بے قراری اور فکر لاحق ہے۔

ملک کی یہ مجموعی صورت حال ہے جس کی تبدیلی ضرور ی ہے۔ آئین کی حکمرانی اور دستور پر بھروسہ کرنے والوں کے ہاتھوں میں ملک کا اقتدار منتقل ہونا ملک کی ترقی اور سلامتی کا ضامن ہے۔ اب تک ہوئے انتخابات سے جو نتائج سامنے آرہے ہیں اس سے یہی معلوم ہورہا ہے کہ عوام نے بہت سوچ سمجھ کر ووٹنگ کی ہے۔ انتخابات کے دوران ایک حساس اور ذی شعور شہری ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ اپنے حقوق کیلئے رائے کی ہے۔ اب آخری مرحلہ باقی رہ گیاہے جس میں 59 سیٹوں پر پولنگ ہونی ہے۔ امید یہی ہے کہ دیگر چھ مرحلوں کی طرح اس آخری مرحلے میں بھی عوام حساسیت کا ثبوت پیش کریں گے۔ چھ مرحلوں کی طرح اس آخری مرحلے میں بھی گذشتہ پانچ سالوں میں پیش آنے والے واقعات ذہن ودماغ میں تروتازہ رہیں گے۔ سوچ سمجھ کر ، مضبوط ، محفوظ اور ترقی یافتہ ہندوستان کیلئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ پہلی مرتبہ حق رائے دہی کا استعمال کرنے والے اس موقع کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ روشن مستقبل ، کامیاب زندگی اور ترقی یافتہ ملک کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ووٹ دیں کیوں کہ جمہوریت میں ووٹ سے ہی ملک ، سماج اور معاشرہ کی تصویر بدلتی ہے۔ ووٹ ہی سماج کی کامیابی کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ گذشتہ چھ مرحلوں میں جس طرح بہت سوچ سمجھ کر آپ نے اپنا ووٹ دیا ہے اسی ہوشیاری ، ذمہ داری، بیداری اور مکمل شعور کے ساتھ آخری مرحلے کے انتخاب میں بھی اپنا ووٹ دیں۔ جمہوریت ، سیکولرزم اور آئین کے پاسداروں کو اقتدار تک پہونچائیں۔ ان لوگوں کو سبق سکھائیں جنہوں نے آئین کی پامالی کی ہے، دستور ہند کی دھجیاں اڑائی ہے۔ ملک کے امن و امان کو نقصان پہنچایا ہے۔ بے گناہوں، معصوموں، غریبوں، کمزوروں اور خواتین پر ظلم و ستم کیا ہے۔ آخری مرحلے کے انتخاب میں کچھ فرقہ پرست عناصر تشدد برپا کرنے کے فراق میں ہیں۔ ملک کے امن کو نقصان پہونچاکر وہ ایک طرح کا سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ ہوشیار رہیں۔ تشدد اور فرقہ پرستی سے گریز کریں۔ ایسی سیاست کرنے والوں سے اپنا رشتہ ختم کریں۔ امن و سلامتی کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں اور سیکولر پارٹیوں کے جیت حاصل کرنے والے نمائندوں کو کامیاب بنائیں۔ سیکولر اور ہمددر سرکار کے انتخاب کیلئے 11 اپریل سے جو سلسلہ شروع ہوا ہے 19 مئی کو اس کا شاندار اختتام کریں۔ مستحق ، امن پسند، ہمدرد اور فعال لیڈر کو اپنا ووٹ دیکر پارلیمنٹ پہونچائیں ۔

(مضمون نگار معروف اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں