ماسٹر ضرار اور نوہیر ہ شیخ کے بعد ایک اور شخص اسلامی بیکنگ کے نام پر مسلمانوں کا کڑوروں روپیہ لیکر فرار

بنگلور کے منصور خان نے مسلمانوں کو غیر سودی منافع اوربڑے ریٹرن کا جھانسہ دےکر پھنسایا،اسکیم کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے علمائ، سیاسی لیڈران اور علاقائی میڈیا کی خدمات حاصل کی۔ مدرسوں و مساجدوں کو خوب چندہ دیکر ان کی دعائیں لی اور فتوی حاصل کیا ۔
نئی دہلی بنگلور ( ملت ٹائمز )
اسلامک بینکنگ کے نام پر بھولے بھالے سادہ لوگ اور سود سے بچنے والے مسلمانوں کوسنہرا خواب دکھانے کا سلسلہ ابھی تک تھما نہیں ہے بلکہ مسلسل بڑھتاجارہے اور اسلامک بیکننگ کے نام پر یہ کاروبار تقریبا پورے ملک میں جاری ہے ۔دہلی سے لے کر ممبئی اور ملک کے کئی بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی چٹ فنڈ یا اسلامی سرمایہ کاری کے نام پر سینکڑوں کروڑوں لوٹ کر ملک سے بھاگ گئے یا جیل کاٹ کر باہر آگئے اور آرام کی زندگی گذار رہے ہیں۔ان کے نام ہی ایسے ہوتے ہیں کہ آدمی فریب کھاجاتا ہے. چند سالوں کے بعد ایک بڑا فراڈ سامنے آتا ہے۔ چناں چہ آج سات سال قبل دیوبند میں ماسٹر ضرار نام کے ایک شخص نے اسلامک بینک کی شروعات کی جس میں اس نے 10 فیصد منافع دینے کا وعدہ کیا ۔ کئی مدرسوں سے اس نے فتوی بھی اپنے حق میں حاصل کرلیا ۔ مدارس کے طلبہ ،علماء،اساتذہ اور سفراءبڑی تعداد میں اس سے وابستہ ہوگئے اور ایک بڑی رقم وہاں جمع کرادی۔ اس نے اپنی ایک سیاسی پارٹی بھی لاﺅنچ کی ۔ نماز او ر دین کے نام پر علماءاور طلبہ کا اعتماد حاصل کرنے میں اسے کامیابی مل گئی لیکن تین سال بعد وہ شخص ایسا غائب ہوا کہ آج تک کسی نے دیکھا نہیں ہے ہزاروں علماء،طلبہ اور اساتذہ آج بھی اسے یاد کررہے ہیں جنہوں نے اپنے کئی ماہ کی تنخوا ہ یا زمین بیچ کر رقم وہاں جمع کرائی تھی ۔
کچھ عرصہ قبل ہیرا گروپ نامی کمپنی کی نوہیرا شیخ کا نام آیا تھا جو خود کو عالمہ کہتے ہوئے تجارت کررہی تھی اور اس نے بھی سرمایہ کاری کرائی تھی۔ اس دوران ایک سیاسی پارٹی بھی تشکیل دی لیکن وہ بھی ان دنوں جیل میں ہے۔
ایسا ہی ایک بڑا فراڈ بینگلور میں بھی کیا گیا ہے جہاں منصور خان نامی اسلامک بینکر نے 30 ہزار مسلمانوں و غیر مسلمانوں کو چونا لگا کر 15 سو کروڑ کی دھوکہ دھڑی کی اور پھر آرام سے دبئی فرار ہوگیا، لوگوں کو بڑے ریٹرن کا وعدہ کرکے منصور خان نے لوگوں کو پھنسایا، لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی یہاں تک کہ خواتین کے زیورات گروی رکھ کر پیسہ لگایا، شروع شروع میں اس نے بڑی رقم کی چیک دے کر بھروسہ حاصل کیا، پہلے 11 فیصد دینے کا وعدہ کیا پھر 7 فیصد اور آخر میں ایک فیصد ریٹرنس پہ ر±ک گیا تب جاکر کہیں لوگوں کا ماتھا ٹھنکا لیکن اسی بیچ منصور خان دبئی چلے گئے اور اس اسکیم کا وہی اثر ہوا جو ایسی دیگر پونچی اسکیمس کا ہوتا ہے۔منصور خان نے سرمایہ کاروں کو پاٹنر کا درجہ دیا تھا ۔

آئی ایم اے کمپنی کے ڈائریکٹر محمد منصور خان

تفصیلات کے مطابق مطابق اسکیم کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے منصور خان نے علماء،مدارس کے ذمہ داران اور مساجد کے ائمہ کی بڑی تعداد میں خدمات حاصل کی ، کئی ایک مولویوں کے نیوزر پوٹل کی بھی فنڈنگ کرکے اپنے حق میں فضا بنائی اور اپنی صداقت پر وہاں خوب اسٹوری شائع کروائی ۔اس کے علاوہ منصور خان نے کانگریس لیڈر روشن بیگ کو خطیر رقم دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ مقامی میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کے ملازمین لمبی لمبی داڑھی رکھتے آفس میں نماز پڑھتے اور سادہ کپڑے پہنتے۔ اس نے مدرسوں و مسجدوں کو کروڑوں کا چندہ دیا اور دعائیں لیں۔ تعجب یہ ہے کہ اس سے چندہ لینے والوں میں چھوٹے مدارس کے علاوہ کئی بڑے مدارس کے نام بھی شامل ہیں ۔اس کی شرافت سے یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایسا کر گزرے گا۔
جن ستہ کی رپورٹ کے مطابق اسلامک بینکر منصور خان لوگوں کو 1500 کروڑ روپے کی چپٹ لگاکر ملک چھوڑ کر فرار ہوگیا۔آئی مائزٹی ایڈوائزری ( آئی ایم اے) جیولرس کا فاو¿نڈر منصور خان نے لوگوں کو 14 سے 18 فیصد تک بڑے ریٹرنس کا جھانسہ دے کر سرمایہ کاری کرنے کے لئے کہا۔ اس کے بعد اس نے مسلم لوگوں سے 1500 کروڑ روپیہ کی رقم ہڑپ لی۔ اس سے پہلے 9 جون کو منصور خان کا ایک آڈیو وائرل ہوا تھا جس میں اس نے خودکشی کرنے کی دھمکی دی تھی۔ آڈیو وائرل ہونے کے بعد سینکڑوں سرمایہ دار کمپنی کے اسٹور پہنچ گئے تھے۔ پولس کا کہنا ہے کہ منصور خان کے خلاف 23000 شکایات درج کرائی گئی ہیں۔ٹائمس آف انڈیا کی خبر کے مطابق پولس نے کہا کہ وہ 8 جون کو ہی ملک چھوڑ کر فرار ہوگیا۔منصور خان کے فرار ہونے کے بعد ایک دن پہلے ہی اس کے خلاف شکایت آئی تھی۔بینگلور پولس نے منصور خان کے خلاف لک آو¿ٹ نوٹس جاری کی ہے۔ اس معاملے میں سب سے پہلی شکایت خالد احمد ڈاکٹر نامی شخص نے کی۔ خالد احمد منصور خان کا قریبی دوست اور بزنس پارٹنر بھی ہے۔ خالد نے منصور پر 84 کروڑ روپے فراڈ کا الزام لگایا۔ خالد کی شکایت ملنے کے بعد ہی منصور کی خودکشی کی وھمکی والی آڈیو سامنے آئی۔ اس کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں سرمایہ کار شکایت درج کرانے کمرشیل اسٹریٹ تھانے پہنچے جبکہ اس سے پہلے ہی منصور فرار ہوچکا تھا, پولس کے ذرائع نے بتایا ہے کہ منصور خان کا امیگریشن 8 جون کی شام کے لئے واضح ہوگیا تھا. وہ 8.45 بجے دبئی کے لئے پرواز بھر چکا تھا۔ پولس نے اس معاملے میں آئی ایم اے کے 7 ڈائریکٹرس کو گرفتار کیا ہے۔ پولس نے بتایا کہ منصور خود اپنی گاڑی چلاکر ایئرپورٹ پہنچا تھا۔ پولس نے منصور کا گھر اور رینچ روور گاڑی بھی ضبط کی ہے۔پولس نے بتایا ہے کہ خان نے دبئی جانے کے لئے بزنس کلاس کی سیٹ بک کرائی تھی۔
اس سے پہلے کی خبروں میں یہ آچکا ہے کہ آئی مائنارٹری ایڈوائزری یا آئی ایم اے کمپنی بند ہے اور سرمایہ کاروں کو ان کی رقم لوٹائی نہیں جارہی ہے۔ پاشا خاندان 5.7 لاکھ روپے اب بھی اس کمپنی میں روک دیا گیا ہے اور کمپنی نے کچھ دنوں سے اپنا دفتر بند کردیا ہے۔ پاشا کمپنی کے ان 8000 سرمایہ کاروں میں سے ایک ہیں جنہونے گزشتہ 48 گھنٹوں میں پولس کے پاس دھوکہ دہی کی شکایت درج کرائی ہے۔ پولس میں دائر ان شکایات سے شروعاتی اندازہ یہی لگایا جارہا ہے کہ یہ قریب 500 کروڑ روپے کا گھوٹالہ ہوسکتا ہے۔سٹی مارکیٹ علاقے میں ناریل کا کاروبار کرنے والے پاشا نے گزشتہ تین سالوں میں کمپنی کے حلال بینکاری اسکیم کے تحت آئی ایم اے گولڈ میں 10 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔پاشا نے بتایا ہمیں فی لاکھ ڈھائی سے تین ہزار روپیے ہر ماہ ملتے تھے۔ لیکن گزشتہ چند ماہ سے ہمیں 1,000 روپیے ماہانہ ملنے لگے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس میں اتار چڑھاو¿ ہوتا رہے گا۔ پانچ ماہ پہلے انہونے اپنے ذاتی خرچ کے لئے 5.2 لاکھ روپے نکالے۔جب سود ایک فیصد سے بھی نیچے آگیا تو انہیں اپنی باقی سرمایہ کاری کی فکر ہونے لگی۔
بنگلور پولس نے اس سے قبل کہا تھا کہ یہ چٹ فنڈ کمپنی بنیادی ڈھانچہ گولڈ، فکس ڈپازٹ، رئیل اسٹیٹ، فارماسیٹکلس وغیرہ میں اپنے پیسے لگاتی تھی، پولس نے بتایا کہ کمپنی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اس شہر میں کاروبار کررہی ہے لیکن اس کے خلاف پہلے ایک بھی شکایت درج نہیں تھی۔
اسلامی بینکاری کے اصولوں پر چلنے والی اس کمپنی کے باقی ڈائریکٹرز کو بھی پتہ نہیں ہے کہ 45 سال کے منصور خان کے پاس کتنی جائیداد ہے۔ سیمنتھ کمار کے مطابق ڈائریکٹرس نے بتایا کہ سارا کام اکیلے منصور خان خود دیکھتے تھے، منصور خان نے شہر کے پولس کمشنر سے خطاب کرتے ہوئے اپنے آڈیو کلپ میں دعویٰ کیا تھا کہ حکام اور شیواجی نگر کے ایم ایل اے کی جانب سے اسے پریشان کیا جارہا ہے اس لئے وہ خودکشی کرلیں گے۔منصور نے ان پر لوک سبھا انتخابات لڑنے کے لئے 400 کروڑ روپیے مانگنے کا الزام لگایا ہے کیونکہ مبینہ طور پہ انہیں کانگریس پارٹی سے ٹکٹ ملنا طے تھا۔ شیواجی نگر کے ممبر اسمبلی روشن بیگ تب سرخیوں میں آئے تھے جب ایگزٹ پول کے فوراً بعد ہی انہونے کرناٹک کے کانگریس لیڈروں اور پارٹی کے جنرل سکریٹری کے سی وینو گوپال پر نشانہ سادھا گرچہ بیگ نے اپنے اوپر لگے الزامات کی تردید کی اور کہا کہ آئی ایم اے گروپ کو وہ اس لئے جانتے ہیں کیونکہ اس نے ان کے علاقے میں ایک اسکول کھولا تھا جہاں بڑی تعداد میں طالب العلم پڑھنے آتے تھے۔سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ تمام شکایات درج کررہے ہیں ہم گروپ کی ساری جائیداد کا اندازہ لگارہے ہیں تاکہ انہیں سیل کردیا جاسکے اور کورٹ سے اسے فروخت کی اجازت لے کر لوگوں کے پیسے لوٹائے جاسکیں۔پولس کو شبہ تھا کہ منصور خان خلیج یا مشرق وسطی ممالک میں فرار ہوگیا ہے اور اب یہ شبہ حقیقت میں بدل چکا ہے۔