دنیا بھر میں سات کروڑ انسان جنگوں کے باعث بے گھر۔ سب سے زیادہ مسلمان

TOPSHOTS A man carries a wounded person in the rebel-held area of Douma, east of the Syrian capital Damascus, following reported air strikes by regime forces on March 15, 2015. AFP PHOTO / ABD DOUMANYABD DOUMANY/AFP/Getty Images

جینوا (ایم این این )
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت سات کروڑ سے زائد انسان جنگوں اور دیگر تنازعات کے باعث بے گھر ہیں، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ایسے انسانوں کی مجموعی تعداد دنیا کے بیس ویں بڑے ملک کی آبادی کے برابر ہے۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے بدھ انیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق گزشتہ برس کے اختتام پر دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں میں جنگوں، مسلح تنازعات اور خونریز بحرانوں کے باعث اندرونی یا بیرونی نقل مکانی پر مجبور ہو چکے انسانوں کی تعداد تقریبا71 ملین بنتی تھی۔
اس ادارے کے مطابق یہ 70.8 ملین انسان ایسے لوگ ہیں، جو محض اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنا گھر بارترک کرنے پر مجبور ہو گئے اور ان کی یہ تعداد 2017 کے مقابلے میں دو ملین زیادہ ہے۔
یوں عالمی سطح پر نقل مکانی پر مجبور ان بے گھر انسانوں کی تعداد کا یہ ایک نیا لیکن برا عالمی ریکارڈ ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے کہ انسانوں کو انسانوں ہی کے پیدا کردہ بحرانوں کے باعث کس کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے ‘گلوبل ٹرینڈز‘ یا ‘عالمی رجحانات‘ کے عنوان سے جاری کی جانے والی اس تازہ ترین سالانہ رپورٹ کے مطابق آج دنیا میں اتنے زیادہ انسان جنگوں اور بحرانوں کی وجہ سے بے گھر ہیں کہ اگر وہ سب کسی ایک ملک میں رہ رہے ہوتے، تو وہ اپنی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا 20 واں سب سے بڑا ملک ہوتا۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق ان تقریبا 71 ملین انسانوں میں ایسے مہاجرین، تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی افراد بھی شامل ہیں، جو عشروں سے اپنے آبائی ممالک اور خطوں سے دور رہنے پر مجبور ہیں، صرف اس لیے کہ ان کی ان کے آبائی علاقوں میں زندگیاں ابھی تک خطرے میں ہیں۔
براعظم افریقہ میں ہجرت پر مجبور اور بے دخل کیے جانے والوں کی مجموعی تعداد تیس ملین سے زائد بنتی ہے۔ ان میں پناہ گزین، داخلی طور پر گھر بار چھوڑنے والے اور واپس لوٹنے والے بھی شامل ہیں۔ یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جنوبی سوڈان سے تعلق رکھنے والا یہ بچہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اپنے دیگر ہم وطنوں کی طرح اس نے یوگینڈا میں پناہ لے رکھی ہے۔
یو این ایچ سی آر کے سربراہ فیلیپو گرانڈی نے جنیوا میں اس رپورٹ کے اجراءکے موقع پر صحافیوں کو بتایا کہ ان کا ادارہ اپنی اس رپورٹ کے ذریعے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر عالمی رہنماو¿ں کو یہ پیغام بھی دینا چاہتا ہے کہ وہ مہاجرین اور تارکین وطن کو اپنے اپنے ممالک میں سلامتی اور روزگار کے مواقع کے لیے خطرات کے طور پر پیش کرنے سے احتراز کریں۔ گرانڈی نے کہا، ”یہ بے گھر اور نقل مکانی پر مجبور انسان تو خود اپنی زندگیوں کا درپیش خطرات کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔“
ادارہ برائے مہاجرین نے اپنی یہ رپورٹ مہاجرین کے عالمی دن سے ایک روز قبل جاری کی، جو کل جمعرات بیس جون کو منایا جا رہا ہے۔ تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ 2018 کے اختتام پر 70.8 ملین انسان بے گھر تھے، 2017 کے اختتام پر ان کی تعداد 68.5 ملین بنتی تھی اور اگر 2008ئ اور 2018ئ کے درمیانی عشرے کو دیکھا جائے، تو اس دوران ایسے انسانوں کی تعداد میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
فیلیپو گرانڈی کے مطابق ایک اور بہت تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ ان تقریبا 71 ملین انسانوں میں سے 41 ملین، یا ہر پانچ میں سے تین انسان ایسے ہیں، جو جنگوں، بحرانوں اور تنازعات کے باعث اپنے آبائی ممالک میں ہی داخلی طور پر مہاجرت پر مجبور ہو گئے۔ ان مہاجرین میں بہت بڑی تعداد خانہ جنگی کے باعث بے گھر ہونے والے شامی باشندوں کی ہے، جو 13 ملین بنتی ہے۔