بابری مسجد مصالحت کمیٹی اب تک نہیں پہونچے کسی نتیجے پر ۔شری شری روی شنکر اب بھی پر امید

نئی دہلی،28جون ( آئی این ایس انڈیا )
ملک کوعصری نزاعی شدت سے نکالنے کے لیے مفاہمت کے جس ماحول کی ضرورت ہے اسے فراہم کرنے میں اجودھیاسمجھوتہ اہم کردار اداکرسکتاہے۔ ان خیالات کا اظہار یہاں آرٹ آف لیونگ کے سربراہ گرودیو شری شری روی شنکر نے کیا۔انہوں نے کہاہے کہ اختلافات دور کرنے میں اتفاق رائے سے مصالحت کی کوشش قوموں کے حق میں ہمیشہ سود مند رہی ہے اور انہیں امید ہے کہ اجودھیا تنازعہ کے فریقین بھی اس ادراک کا عملاً مظاہرہ کریں گے جو دونوں کے لیے وِن وِن پوزیشن کے ساتھ مثبت ثابت ہو گا۔ایک سوال کے جواب میں اس تمہید کے ساتھ کہ رام کا احترام کسی ایک فرقے تک محدودنہیں انہوں نے رام جی کو امام الہند قرار دینے کے شاعر مشرق کے جذبے سے اتفاق کیا اور کہا کہ مذاہب ہمہ جہت زندگی کی راہ دکھاتی ہیں مسدود نہیں کرتیں۔انہوں نے کہا کہ امکانات کی طرف سے منھ موڑ کر ہر وقت اندیشوں میں گھرے رہنے سے بات نہیں بنتی۔ مندر بنے گا تو مسجد بھی بنے گی اورایسا ہوا توامید کی جانی چاہئے کہ باہمی تعاون اور اشتراک کا مظاہرہ بھی دونوں طرف سے ہوگا۔قبل ازیں قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین پروفیسر طاہرمحمودسے ایک ملاقات میں بھی دونوں نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ نے اجودھیا تنازعہ پر عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے نزاع کے سبھی فریقوں میں اتفاق رائے سے مصالحت ہو جانا ملک و قوم کے عین مفاد میں ہوگا۔واضح رہے کہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سر براہی والی عدالت عظمی کی ایک پانچ رکنی بنچ نے اجودھیامقدمے کی سماعت کرتے ہوئے 8مارچ کو مصالحت کی کوشش کرنے کے لیے اپنے سبکدوش جج جسٹس خلیفة اللہ، مصالحتی قوانین کے ماہر ایڈووکیٹ سری رام پنچواوردھرم گروشری شری روی شنکرپرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی توسیع شدہ مدت کار 15اگست کو مکمل ہو رہی ہے۔کمیٹی کی آئندہ میٹنگ لکھنو¿ میں ہوگی۔