عامر ظفر قاسمی
یہ دن ہمیں سوچنے سمجھنے اور کوئی لائحہ عمل کرنے کا پیغام دیتا ہے یہ دن ہمیں اپنے اسلاف او ربزرگوں کی قربانیوں کو یاد کرکے ان سے سبق سیکھ کر زندگی گذارنے کا حکم دیتا ہے میں عرض کردوں کہ جنگ آزادی کی دوسوسالہ تاریخ ہے اس کی ابتداء اس وقت ہوگئی جب ۱۷۵۶ ء میں نواب سراج الدولہ جیسے جری بہادر بادشاہ کا دورِ حکومت آیا اور تاریخ کا یہ روشن باب اس وقت مکمل ہوگیا جب وہ مشہور ومعروف تاریخ دوہرائی گئی جس میں خون کی ندیاں بہہ گئی، گاجر مولی کی طرح محبین وطن کو کاٹ کررکھ دیا بقول غالب
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے اب انسان کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
آج جسے غدر ۱۸۵۷ ء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے پھر دوسرا دور اس وقت مکمل ہوا جب انگریزوں کی غلامی کی زنجیریں قانونی طور پر ہماری گردنوں سے نکالی گئیں اور وہ وقت ہے ۱۹۴۷ ء اگر ہم ان دوتاریخوں کا جائز لیں تو معلوم ہوگا ۱۸۵۶ ء سے ۱۸۵۷ ء تک تن تنہا مسلم قوم نے یہ آزادی کی لڑائی لڑی جس میں ہمارے امراء رؤسا اور شایانِ مملکت نے گردنیں کٹوائی جس میں ہمارے علماء ،صلحا اوربزرگانِ دین اپنی خانقاہوں مسندوں اور بوریوں کو چھوڑ کرکفن بردوش ہوگئے اور سرزمین ہند کوانگریز سے آزاد کرانے کیلئے اپنا خون مہیا کرتا تاریخ کو ایک نیا موڑ دیا۔
محب وطن ٹیپو سلطان ایک عظیم مجاہد آزادی:۔یہ ایک صدی کی تاریخ مسلمانوں کی بے نظیر او ربے لوث قربانیوں سے بھری پڑی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا خصوصاً اس حساس بلند ہمت ،بالغ نظر اور دوراندیش بہادر بادشاہ کو جسے ٹیپو سلطان کہا جاتا ہے جب اس نے دیکھا کہ انگریز ہمیںآپس میں لڑا کر آندھی طوفان کی طرح سرزمین ہند کو روندتے ہوئے قبضہ کرتے جارہے ہیں تو اس نے سوچا کہ اگر کوئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پر نہ آسکی او راگر ان بڑھتے ہوئے سیلاب کو نہ روکا گیا تو وہ دن قریب ہے جب پورا ملک ان کی جھولی میں ہوگا چنانچہ ٹیپو سلطان نے منظم طور پر انگریزوں سے معرکہ آرائی شروع کردی، انگریزوں کو بھی یہ احساس ہو چلا تھا کہ ٹیپوسلطان ہی ایک ایسی چٹان ہے جسے راستہ سے ہٹایا جانا ضروری ہے اگر سلطان زندہ رہے گا تو ہم اپنے ناپاک ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے چنانچہ سلطان نے کسی بھی حال میں انگریزکے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے، اپنی شجاعت وبسالت،دلیری وبہادری کے بل بوتے پر لڑتا رہا، اس کا یہ قول مشہور ہے کہ گیدڈ کی سوسالہ زندگی سے شہر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے
شیر اچھا ہے جسے مہلت ایک روزہ ملی
یا وہ گیدڑ جسے بخشا گیا صد سالہ خلود
آخر کاراپنوں کی غداری او رجنوبی ہند کے امراء کی انگریز کی چاپلوسی کی وجہ سے یہ مجاہد بادشاہ ۱۷۹۹ ء کو سرنگا پٹنم کے معرکہ میں شہید ہوکر کاروانِ حریت کو نقوشِ راہ دے گیااس کی نعش پر کھڑے ہوکر جنرل ہارس نے کہا آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔
شاہ عبدالعزیز ؒ نے جہاد کا فتویٰ دیا:۔ اس کے بعد اب کوئی طاقت ایسی نہیں رہ گئی تھی جو انگریزوں کا مقابلہ کرسکتی ،مغل بادشاہ صرف لال قلعے کے حکمراں رہ گئے تھے، یہ نعرہ بلند کیا جانے لگاحکومت شاہ عالم ازدہلی تاپالم اور ملک پادشاہ سلامت کا حکم کبھی بہادر کا پھر ملک میں بے چینی پھیلنی شروع ہوگئی ،استخلاص وطن کی دوڑ دھوپ تیزتر ہوئی ۱۸۵۷ ء عظیم بغاوت سے بہت پہلے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بڑے بیٹے شاہ عبدالعزیزؒ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتوی ٰ دے دیا او رظلم وستم کے کسی بھی تازیانہ کے سامنے سر نہ جھکا کر برابر جہاد کا اعلان کرتے رہے۔
علماء کی ایک بڑی جماعت وطن پر قربان ہوگئی:۔ سیّد احمد شہید اور شاہ اسمعیل شہید نے مجاہدین کی تحریک کا آغاز دہلی کی مسجد اکبر آبادی سے کیا اس مقدس جماعت نے انگریزوں سے زبردست لڑائی کا منصوبہ بنایا تھا مگر ۱۸۱۳ ء میں یہ تحریک بالا کوٹ کے میدان میں دفن ہوگئی لیکن حقیقت ہے کہ یہ تحریک ہی آئندہ مجاہدین آزادی کی تحریکات وتنظیموں اور سرگرمیوں کاسنگ بنیاد بن گئی ۱۸۵۷ ء کی بغاوت کا انگریز نے مسلمانوں سے سخت انتقام لیا ان کے محلے کے محلے اجاڑ دئیے، مساجد کوویران کردیا ناحق گولیاں چلائیں ان کے محلے کے محلے اجاڑدئیے، مساجد کو ویران کردیا ناحق گولیاں چلائیں،دہلی اور دہلی کے باہر درختوں پر پھانسی کے پھندے لٹکادئیے گئے اور مسلمانوں کو پکڑ کر انگریز ہاتھی پر بٹھا تے پھندے گلے میں ڈالتے اور ہاتھی آگے بڑھادیتے پھر کیا تھانعش جھول جاتی آنکھیں اُبل پڑتی، تڑپ تڑپ کر دوہری ہوجاتی، کتنا دلدوز منظر تھا کہ مسلمانوں کوبوریے میں بھرکر توپ کے منھ میں باندھ دیا اور توپ داغ دی جاتی پھر جسم کاغذ کے پُرزوں کی طرح اُڑ جاتے،بہادر شاہ ظفر پر بغاوت کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا اور مجرم قرار دے کر ان کو جلاوطن کردیا گیا۔ تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا کہ اُن کے چہیتے صاحبزادوں مرزا مغل، مرزا خضر سلطان ، مرزا ابوبکر، مرزا عبداللہ کو قتل کرکے طشتری میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کیاگیا تو بادشاہ حیرت انگیز صبر وضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا الحمد للہ تیمو رکی اولاد ایسے سرخ رو ہوکر باپ کے سامنے آیا کرتی ہے ،اس عظیم مجاہد کو اپنے ہی وطن میں دفن کیلئے جگہ بھی نہ مل سکی۔
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کیلئے
دوگززمین بھی نہ ملی کوئے یارمیں
مسلم قوم کی انگریز قوم سے نفرت کی حد:۔ یہ مسلم قوم ہی ہے جس نے سب سے پہلے آزادی کا بگل بجایا جس نے مختلف تحریکوں کو جنم دیا، جس کے مجاہدین نے ہندوبیرون ہند میں آزادی کیلئے ناقابل فراموش دوڑدھوپ کی اورانگریز ہم ہی سے آزادی کے نعرے کا زیادہ بدلہ لیتے رہے، کیونکہ ملک مسلمانوں سے چھینا گیا تھااور پھر وطن سے محبت اس کے ایمان کا ایک حصّہ ہے اس لئے اس کی جدوجہد لازمی او رضروری تھی یہی وہ قوم تھی جس نے ان سے نفرت کی اس کی تہذیب پر لعنت بھیجی ان کے ملبوسات کوپاؤں تلے روند ڈالا ہمارے بزرگوں کی اسی نفرت ومخالفت کا نتیجہ تھا کہ ملک آزاد ہوا حضرت شیخ الہندؒ سے اگر کوئی انگریز ہاتھ ملا لیتا اس وقت تک کوئی چیز نہیں چھوتے جب تک ہاتھ کو دھل کر صاف نہ کرلیں انگریز خود کہتا تھا اگر اس محمود الحسن کو جلادیا جائے اور جلا کر اس کی راکھ سونگھا جائے تو اس کی راکھ سے انگریزی سامراج کے خلاف ہی بو آئے گی انہیں شیخ الہندکو مالٹا کے زنداں خانوں میں وہ درد ناک سزائیں دی گئیں کہ ان کے بیان سے بدن لرزتا ہے آنکھیں روتی ہیں،شیخ الہندؒ کے انتقال کے بعد غسل کیلئے جب اُنہیں تخت پر لٹایا گیا تو دیکھنے والے حیرت زدہ تھے کہ شیخ الہند ؒ کی کمر پر گوشت نام کی کوئی چیز نہیں صرف ہڈیاں ہی ہڈیاں ہے حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے معلوم کیاگیا کہ یہ کیا واقعہ ہے؟ مولانا مدنیؒ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں او رفرمانے لگے کہ میرے شیخ نے مجھے منع فرمایاتھا اس کا کسی سے ذکر نہ کرنا اے لوگوں مالٹا کے جیل خانوں میںآزادی کے نعرے کے جرم میں انگریز میرے شیخ کی کمر مبارک کو لوہے کی گرم سلاخوں سے داغتا تھا یہاں تک کہ گوشت نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی گئی تھی یہ تھے اکابر دیوبند (وطن پر قربانی کا بے مثال کارنامہ) حضرت مولانا یحیٰ علی، مولانا جعفر علی تھانیسری اور مولانا محمد شفیع لاہوری کو انگریز عدالت نے پھانسی کا حکم سنایا او رجج نے کہا کہ کل تم کو پھانسی کی سزا دی جائے گی اور کل تمہاری جائیداد بھی ضبط کر لی جائے گی اور تمہاری لاش تمہارے وارثین کو نہیں دی جائے گی بلکہ نہایت ذلّت کے ساتھ گورستانِ جیل میں گاڑدی جائے گی تم کو پھانسی پرلٹکتا دیکھ کر بہت خوش ہوؤنگالیکن………آپ کو حیرت ہوگی کہ یہ تینوں مسلمان یہ سزا سن کر مسکرا دئیے ان کے چہرے کھل اُٹھے، مسرت ان کے چہرے پر رقص کرنے لگی، انگریز حیران تھا کہ یہ کمبخت نہ تو پریشان ہیں نہ مضطرب ،انگریز مجسٹریٹ نے اپنی بات دہرائی، کہ شاید یہ سمجھ نہ پائے ہوں مگر ان کی خوشی میں کوئی کمی نہ تھی اور فرمایا کہ تمہیں شہادت کی لذت کی کیا خبر، حوریں ہمارے لئے فرش راہ ہیں اور بہشت بریں ہماری منتظر ہے
شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور،کشائی
انگریزوں کے پایۂ تخت میں ایک عالم کا نعرۂ آزادی:۔ حضرت مولانا محمد علی جوہر مولانا شوکت علی نے آزادی کی خاطردردناک سزاؤں کو برداشت کیا انہوں نے انگریزکے پایہ تخت لندن میں جاکر دردناک سزاؤں کو برداشت کیا انہوں نے انگریز کے پایہ تخت لندن میں جاکر کہا تھا میں ہندوستان اس صورت میں واپس جاؤ نگا کہ میرے ہاتھ میں آزادی کا پروانہ ہوگا، میں غلام ملک میں واپس نہیں جاسکتا کہ اگر تم ہمیں آزادی کا پروانہ نہ دوگے تو اس زمین پر دفن کیلئے دوگز جگہ دینی ہی ہوگی کئی بار انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا ایک بار وہ جیل میں تھے ان کی بیٹی آمنہ بیمار اور لاغر کمزور ہوگئی مگر یہ کمزور یاں ان کے راستے میں حائل نہ ہوسکی انہو ں نے ایک پیغام بھیجا جو ان کی ایمانی طاقت وقوت کا مظہر تھا اعتماد وتوکل کا شاہکار تھا
میں ہوں مجبور پر اللہ تو مجبور نہیں
تجھ سے میں دور سہی وہ تو مگر دور نہیں
تو تو مردوں کو جلاسکتا ہے قرآن میں کہا
تُخرج الحی من المیّت مذکور نہیں
بہار جو اب ہند میںآئی ہوئی ہے:۔ آزادی کی اس طویل ترین تاریخ میں ہماری عورتوں کو بھی بے حرمت کیاگیااور املاک پر بھی ڈاکہ زنی کی گئی ہمیں کا لے پانی کی اذیتیں بھی برداشت کرنی پڑیں اور مالٹا کے زنداں خانوں میں بھی ہمارے صبر وضبط کا امتحان لیاگیا ،پانی پت وشاملی کے میدانوں میں بھی ہمارا خون ضبط ہوا ہے او راحمد نگر کے قید خانوں کو بھی ہم ہی نے اپنے عزم وحوصلوں کا نظارہ کرایا ہے جلیا نوالہ باغ کے خونی منظر سے بھی ہم گذرے ہیں لاہور کی شاہی مسجد بھی ہماری قربانیوں کی شاہد ہے او رہندوستان کے جس چپہ پر بھی آپ دیکھیں گے اور جس اینٹ کو اٹھائیں گے وہاں ہمارے خون کی مہک ہمارے بزرگوں کے گرم گرم راتوں کے آنسوؤں کی نمی او رہمارے جیالوں کے ولولے او رعز م وحوصلے ملیں گے
صبا اب جو ہند میں آئی ہوئی ہے
یہ سب پودا انہیں کی لگائی ہوئی ہے
آزادی کی لڑائی دوچار یادس بیس لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آج ملک کو اس مقام تک لانے کیلئے بے شمار لوگوں نے اپنی جان سے ہاتھ دھوئے ہیں جن کا ہم نام تک نہیں جانتے ان کے گلی کوچوں اور مکانوں سے ہم واقف نہیں ایسے ایسے لوگ جن کے قدموں کے نیچے لوگ اپنی آنکھیں بچھاتے ہیں جن کے پسینے پر اپنا خون بہانے کیلئے تیار رہتے تھے جنکی ایک آواز پر اپنی جان نچھاور کردیتے تھے وہ اپنے ملک کو آزادکرانے کیلئے میدان میںآئے تو اس وقت تک نہ لوٹے جب تک ان کی ایک سانس بھی باقی رہی،آج اس تاریخی دن میں جسے یوم جمہوریہ کہتے ہیں تمام ہندوستانیوں کو اس خطرہ سے آگاہ کردینا چاہتا ہوں ایک بار پھرآپ کواپنے قلم سے اپنی زبان سے ،اپنی ذہانت وذکاوت سے اپنی ہوشیاری وتدبر سے، اپنی جان اور مال سے نفرت وعداوت ،فسادات اور ظلم وزیادتی کے خلاف اپنی آواز کو بلند کرتے رہنا پڑے گااور اس وقت یہ لڑائی جاری رکھنی پڑے گی جب تک اس ناسور سے ہندوستان کی زمین پاک نہ ہوجائے ورنہ یاد رکھو وہ دن دور نہیں جب آپسی اختلافات ،تعصب اور نفرت وعداوت ہمارے ملک کو توڑ دے گی او رپھر ہم پہلے کی طرح غلام بن جائینگے یہاں آج جو بھی رہتا ہے وہ برابر کا حصّہ دار ہے ہر فرقہ نے آزادی کی لڑائی لڑی او رملک کو آزاد کرایا ہے اور خصوصاً مسلمانوں نے انگریزی سامراج کے خلاف جو جنگ لڑی وہ ایک بیش رو کی حیثیت رکھتی ہے مسلمانوں نے ہی جنگ آزادی کا بگل بجایا یہاں تک کہ ملک آزاد ہوگیا جنہوں نے صعوبتیں برداشت کیں جو زخمی ہوئے اپنے آباء واجداد کو سولیوں پر لٹکتے دیکھا جنہوں نے اپنے اسلاف کو گولیوں سے بھنتے دیکھا جنہیں کالے پانی بھیجا گیا جنکی زمینیں ضبط کرلی گئی جنہوں نے انگریزی حکومت کے ایوانوں کو تہ و بالا کردیا اس لئے آج اس اسٹیج سے
ٹیپو سلطان کا ایک حامی
مفتی کفایت اللہ کا ایک متبع
مفتی محمو دالحسنؒ کا ایک علمبردار
گاندھی ونہرو کا ایک سفیر
سبھاش چندر بوس کا ایک سیاسی
یہ کہ دینا چاہتا ہے کہ یہ ملک آزاد ہے اسے آزادرہنے دو تمام اقوام کا مل جل کر رہنا ہندوستان کی سالمیت کا ثبوت ہے۔
(مضمون نگار مدرسہ معہدالطیب نبی کریم ،دہلی کے ناظم ہیں )
درج ذیل فون نمبر اور میل آئی ڈی کے ذریعہ ان سے رابطہ کیا جاسکتاہے
mdaamirzafar@gamil.com
Mob. : 9582226515