ہجومی تشدد کا سد باب اور اس سے تحفظ کیسے ممکن ہے ؟

ماب لنچنگ سے بچنے اور سماج کو خوف سے نکالنے کیلئے رائٹ ٹو سیلف ڈیفینس پر عمل کرنا سب سے موثر اور بہتر طریقہ ہے ۔ غیر مسلموں کے ساتھ حسن اخلاق کا مظاہر ہ ، قانون پر عمل اور دعوت وتبلیغ سے وابستگی سب سے بہتر حل ہے
خبر در خبر (615)
شمس تبریز قاسمی
ہجومی تشدد اور ماب لنچنگ ہندوستان کا سب سے سنگین مسئلہ بن گیا ہے ۔ گذشتہ پانچ سالوں میں ہجومی تشدد کے جتنے واقعات پیش آئے ہیں بی جے پی کی دوسری مدت شروع ہونے کی بعد اس کی رفتار میں کئی گنا اضافہ ہوگیاہے ۔فیکٹ انڈیا کی رپوٹ کے مطابق 2014 سے 2019 تک ماب لنچنگ اور ہجومی تشدد کے 291 واقعات پیش آئے۔98 افراد کی موت ہوئی اور 722 زخمی ہوئے ۔ ایسے واقعات کے متاثرین میں 59 فیصد مسلمان تھے بقیہ دلت اور دوسرے تھے ۔دیگر سروے رپوٹ میں لنچنگ کے واقعات کی تعداد اس سے زیادہ بتائی گئی ہے ۔ مئی 2019 میں دوبارہ بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد اب تک ماب لنچنگ کے 55 سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں ۔ ملت ٹائمز کی ٹیم نے ایک تحقیقی رپوٹ تیار کی ہے جس کے مطابق جس دن مودی حکومت کے 44 دن مکمل ہوئے اس دن پورے ملک میں ماب لنچنگ اور ہجومی تشدد کے 55 واقعات پیش آچکے تھے ۔ یہ رپوٹ بتارہی ہے کہ مودی سرکار کی پہلی مدت کے مقابلے میں اب ہجومی تشدد کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوگیاہے ۔ ریاضی کے ماہرین بآسانی بتادیں گے کہ پانچ سال یعنی 1780 دنوں میں ماب لنچنگ کے 291 واقعات پیش آنے کا مطلب ہے کہ ہر چھ دن میں تقریبا ایک لنچنگ ہوئی ہے ۔ دوسری مدت میں ماب لنچنگ کے جتنے واقعات اب تک پیش آچکے ہیں اگراس کی یہی رفتار جاری رہی تو پانچ سال یعنی 1780 دنوں میں ماب لنچنگ کے 2225 واقعات پیش آئیں گے جس کا مطلب ہے کہ ایک بھی دن ناغہ نہیں ہوگا ۔ یومیہ ایک سے زائد ماب لنچنگ کے واقعات رونما ہوں گے۔
حکومت کی نیت اور منشا صاف ظاہر ہوچکی ہے کہ وہ ہجومی دہشت گردی کو روکنے کے بجائے مزید بڑھانا چاہتی ہے ۔ مجرموں اور شر پسند عناصر کو ان کی حمایت حاصل ہے ۔ مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے افسوس کا اظہا کرنے کے بجائے ایسے واقعات کو من گھڑت اور فرضی قرار دے دیاہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں تبریز انصاری کی لنچنگ پر افسوس کا اظہار ضرور کیا لیکن ان کا مقصد حکومت کا دفاع اور سرکار کو بچانا تھا اس لئے وہ بھی غیر موثر رہا۔یہ بھی واضح رہنا چاہیئے کہ ہجومی دہشت گردوں کا ہد ف صرف مسلمان نہیں بلکہ دلت بھی ہیں ۔ اب تک جو واقعات پیش آئے ہیں اس میں دلت اور مسلمانوں دونوں کو کسی نہ کسی الزام کے تحت پیٹ پیٹ کا ماراگیاہے ۔
ہجومی دہشت گردی اور زبردستی جے شری رام کا نعرہ لگوانے کے مسلسل واقعات رونما ہونے اور سوشل میڈیا پر اس طرح کی ویڈیو ز وائرل ہونے کے بعد عام مسلمانوں میں ایک طرح کی بے چینی پھیلی ہوئی ہے ۔ تعلیم یافتہ اور مسلم دانشوران بھی پریشان اور ذہنی الجھن کے شکار ہیں ۔ مسلم قیادت مجموعی طور پر خاموش ہے ۔ ایسے میں یہ سوال سب سے اہم ہے کہ ماب لنچنگ کا حل کیا ہے ۔ اسے کیسے روکا جاسکتاہے ؟ اس ناسور کا سدباب کیا ہوگا ؟۔
اس بارے میں اعلی مسلم قیادت خاموش ہے ۔ممکن ہے اندورنی طور پر ان کے ذہن میں کوئی منصوبہ ہو۔ گذشتہ ہفتہ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں اعلی مسلم قیادت اور دانشوران کی ایک میٹنگ بھی ہوئی تھی جسے میڈیا سے دور رکھاگیا ۔ آل انڈیا ملی کونسل کی بھی کانسٹی ٹیوشن کلب میں23جون 2019 کو ایک اعلی سطحی میٹنگ ہوئی تھی ۔جمعیت علماءہند بھی مسلم ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ ایک مٹینگ کرچکی ہے۔ تاہم ان سبھی کا ابھی تک کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیاہے ۔مقامی طور پر مسلمان اور برادران وطن احتجاج کررہے ہیں ۔کچھ برادران وطن بھی ماب لنچنگ کو روکنے کیلئے مہم چلارہے ہیں لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوپارہی ہے کیوں کہ اکثریتی طبقہ کے اعلی مذہبی رہنما سامنے نہیں آرہے ہیں اور نہ اس مسئلے پر کچھ بول رہے ہیں ۔
بھیڑکی دہشت گردی ،سرکار کی خاموشی اور مسلم قیادت کی بے بسی کے دوران ماب لنچنگ کو روکنے کیلئے دوطرح کے اقدامات اب تک سامنے آئے ہیں ۔ایک طریقہ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل محمود پراچہ نے اختیار کیاہے۔ دوسرا لائحہ عمل یو اے ایچ کی ٹیم نے پیش کیاہے ۔
ایڈوکیٹ محمود پراچہ نے 11جولائی 2019 کو پریس کلب آف انڈیا میں ایک پریس کانفرنس انعقاد کرکے کہاکہ ہندوستان میں ہتھیار چلانے کی اجازت صرف دو موقع پر دی گئی ہے ۔ ایک اختیار فوج کو حاصل ہے جس کا مقصد بیرونی خطرہ اور دیگر حملوں سے ملک کا دفاع ہے ۔ دوسر اختیار اس شہری کو انفرادی طور پر دیاگیاہے جس پر جان لیوا حملہ ہوتاہے اور ہتھیار چلانے کے علاوہ اپنی جان بچانے کا اس کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے ۔ ان کا کہناتھاکہ سرکار ماب لنچنگ سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے ۔ مسلمان مسلسل اس کے شکار ہورے ہیں اس لئے رائٹ ٹو سیلف ڈیفیسن کے تحت مسلمانوں کے پاس اس کے علاوئی اور آپشن نہیں رہ گیاہے کہ وہ ہتھیار حاصل کرنے کیلئے فارم بھریں ۔ ہتھیار چلانا سیکھیں اور جب کبھی ایسا موقع آتاہے تو اس کا استعما ل کریں ۔انہوں نے اپیل کی کہ زیادہ سے زیادہ شہروں میں حق دفاع تربیتی کیمپ لگائے جائیں ۔مسلمانوں کو رائٹ ٹو سیلف ڈیفینس کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور ہتھیار حاصل کریں ۔وہ خود بھی 26 جولائی کو لکھنو میں اسی طرح کا کیمپ لگارہے ہیں ۔
ماب لنچنگ سے تحفظ حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرا طریقہ یونائٹیڈاگینست ہیٹ کے سربراہ ندیم خان نے پیش کیا ہے ۔ گذشتہ 15جولائی کو پریس کلب آف انڈیا میں انہوں نے ماب لنچنگ سے بچنے کیلئے ایک ہیلپ لائن نمبر جاری کیا ۔انہوں نے بتایاکہ اگر کسی پر حملہ ہوتاہے تو وہ فورا فون کرے، ہماری ٹیم وہاں پہونچ کر مدد کرے گی ۔جو متاثرین ہیں عدالت میں مقدمہ لڑیں گے ۔ندیم خان کے مطابق دوسو سے زائد شہروں میںیو اے ایچ کی ٹیم فعال ہے ۔متعدد سینئر وکلاءان کے ساتھ ہیں ۔ 26جون کو ندیم خان نے دہلی کے جنتر منتر سمیت ہندوستان کے ستر شہروں میں ماب لنچنگ کے خلاف ایک تاریخ ساز احتجاج بھی کرایاتھا اور وہ مسلسل ا س حوالے سے کام کررہے ہیں ۔
وہاٹس ایپ پرکچھ لوگ ملی قیادت سے امید یں وابستہ کئے بیٹھیں ہیں اور ان سے بڑ ے پیمانے پر احتجاج کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ان کی خاموشی پر تنقید بھی کررہے ہیںکہ وہ کیوں سڑکوں پر نہیں نکل رہے ہیں ۔ پہلے کی طرح رام لیلامیدان میں کیوں بھیڑ جمع نہیں کررہے ہیں ؟۔ پی ایم مودی اور حکومت کے دیگر ذمہ داروں سے ملاقات کرکے یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھارہے ہیں ؟
ماب لنچنگ اور ہجومی تشدد سے بچنے او رتحفظ حاصل کرنے کیلئے کچھ اوربھی تجاویز سامنے آرہی ہیں لیکن ان میں سب سے موثر اور مناسب طریقہ آئین میں دیئے گئے حق رائٹ ٹو سیلف ڈیفینس پر عمل کرناہی لگ رہاہے ۔ ایڈوکیٹ محمود پراچہ نے جو راستہ دکھایاہے وہ سب سے بہتر اوراس مسئلے کا مناسب حل ہے ۔لیکن انہوں نے ایک چوک کی ہے ۔ سرعام اس طرح کی بات کرنے کے بجائے خاموشی کے ساتھ اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس اعلان کے بعد یہ بھی اندیشہ ہے کہ سرکار لائنسس دینا بند کردے ۔
اگر کسی پر کوئی بھیڑ حملہ کرتی ہے تو اس کا دفاع ،اپنی طاقت کا مکمل اظہار اور معافی مانگنے کے بجائے مضبوطی سے مقابلہ ضروری ہے ۔ آئین میں اپنے دفاع اور بچاﺅ کیلئے حملہ آور کی جان لینے تک کی اجازت حاصل ہے ۔اس بارے میں بیداری لانے اور عام مسلمانوں کو بتانے کی ضرروت ہے ۔ زیادہ سے زیادہ ہتھیار بھی حاصل کرنا ضروری ہوگیاہے لیکن یہ سب خاموشی کے ساتھ ہونا چاہیئے ۔علاقائی سطح پر مقامی علماء، دانشوران اور مسلم سماجی رہنما ءاس سلسلے میں بہتر رول ادا کرسکتے ہیں ۔ ہفتہ میں ایک دن ایک خفیہ میٹنگ رکھیں ۔ محلے کے لوگوں کو اکٹھاکرکے انہیں اسلام کی تاریخ بتائیں ۔ حق دفاع قانون کے بارے میں آگاہ کریں اور ذہنی وفکری طور پران کی تربیت کریں ۔ انہیں عزم ،حوصلہ اور ہمت دیں ۔تعزیہ کھیلنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیئے اسی بہانے کچھ لوگ تلواراور لاٹھی چلانا سیکھ لیتے ہیں۔کچھ جگہوں پر گﺅرکشکوں اور دہشت گردوں کو اپنے جال میں پھنسائیے ۔ دربھنگہ اور پونے کے واقعات کو سامنے رکھیے جہاں گﺅ رکشکوں کی علاقے کے لوگوں نے جم کر پٹائی کی جس کے بعد دوبارہ اس علاقے میں کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔حالیہ دنوں میں مہاراشٹر ا کے بارے میں ایک خبر گردش کررہی ہے جہاں نوجوانوں نے گﺅ رکشکوں کی اچھی طرح خبر لی ہے ۔
سوشل میڈیا پر اپنی مظلومیت کی داستان سنانے سے بھی گریز کیجئے ۔ان ویڈیوز کو ہر گز مت شیر کیجئے جس میں کسی مسلمان پر حملہ ہورہاہے ، کسی سے زبردستی جے شری رام کا نعرہ لگوایا جارہاہے ۔آج کی تاریخ میں کسی بے گناہ کو مارنے سے زیادہ سنگین معاملہ ویڈیو بنانا اور اسے وائرل کرناہے ۔ جب اس طرح کی ویڈیوز وائرل ہوتی ہے تو مجرمین کی تعداد مزید بڑھ جاتی ہے ۔ ان کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں اور قانون کا ڈر ختم ہوجاتاہے ۔ ایک شخص جرم کرتاہے اور پھر اسے چھپانے کے بجائے عام کرتاہے ، سرعام اقرار کرتاہے جس کا واضح مطلب ہے کہ اصل مقصد مسلمانوں کو ڈرانا ،خوف زدہ کرنا اور ان کے دلوں میں وحشت طاری کرنا ہے ۔ سوشل میڈیا پر فعال ہم جیسے لوگ ایسے ویڈیوز کو شیئر کے،اسے دیکھ کرکے ان کے ایجنڈا کو کامیاب بناتے ہیں ۔ اس لئے یوٹیوب پر جو لوگ کام کرتے ہیں یا دیگر سوشل میڈیا پر فعال ہیں وہ اس طرح کی ویڈیوز شیر نہ کریں ۔ ملت ٹائمز میں ہم نے سختی سے ہدایت جاری کررکھی ہے کہ اس طرح کی کوئی بھی ویڈیو شیئر نہیں کی جائے گی۔
ماب لنچنگ اور ہجومی تشدد کا اصل مقصد مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کرنا ،معاشی ،اقتصادی ،سماجی اور ایمانی طور پر کمزور کرناہے ۔ یہی مسلمانوں کی آزمائش اور ثابت قدم رہنے کا وقت ہے ۔یہ بھی ہمارے سامنے رہنا چاہیئے کہ ہجومی تشدد اوردہشت گردی پر یقین رکھنے والوں کی تعداد دس فیصد سے بھی کم ہے ۔ ہندوستان کے 70 فیصد غیر مسلم آپ کے ساتھ ہیں ۔ تازہ واقعہ مہاراشٹر ا کا ہے جہاں ایک غیر مسلم فیملی نے ماب لنچنگ کے شکار مسلم نوجوان کی جان بچائی ۔احتجاج کرنے والوں میں وہ بھی شامل ہیں ۔ متعدد جگہوں پر غیر مسلموں نے ماب لنچنگ کے خلاف احتجاج کیا ہے ۔ مسلمانوں کے بعد دلت سب سے زیادہ ماب لنچنگ کے شکار ہیں اس لئے ہمیں ان کا بھی ساتھ دینا چاہیئے ۔ ان کے ساتھ جاری مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیئے دنیا کو یہ بتانا چاہیئے کہ دلتوں ،کمزورں اور آدی واسیوں کے بھی حقوق محفوظ نہیں ہیں ۔ مسلمانوں کی طرح وہ بھی ہندتوا عناصر کے نشانے پر ہیں اور مسلسل حملہ کرکے ایک مرتبہ پھر دلتوں کو غلام بنانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے ۔
ماب لنچنگ سے بچنے اور سماج کو خوف سے نکالنے کیلئے رائٹ ٹو سیلف ڈیفینس پر عمل کرنا سب سے موثر اور بہتر طریقہ ہے ۔ غیر مسلموں کے ساتھ حسن اخلاق کا مظاہر ہ ، قانون پر عمل اور دعوت وتبلیغ سے وابستگی سب سے بہتر حل ہے ۔آزاد ہندوستان کے ستر سالوں میں بہت کچھ بدل گیاہے ۔ کئی ساری پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔2019 کا نتیجہ آنے کے بعد کئی سارے دانشوران اور مفکرین کا نظریہ غلط ثابت ہوگیاہے۔ مسلمانوں کو بھی اپنی پالیسی بدلنی ہوگی ۔ پچاس سال آگے کے بارے میں سوچتے ہوئے کام کرنا ہوگا ۔
stqasmi@gmail.com

SHARE