صاحب معانقہ میں لگے رہے خان آگے نکل گئے!

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی 

ڈونالڈ ٹرمپ جب امریکی صدر منتخب ہوگئے تو ہندوستان کے ایک طبقہ نے بے پناہ خوشیاں منائی ۔ 2016 کے اخیر میں انتخابی مہم کے دوران بھی یہ طبقہ ذہنی طور پر ٹرمپ کی حمایت کررہا تھا۔ اس تعلق اور جشن کا پس منظر اور بنیادی وجہ ڈونالڈ ٹرمپ کا اسلام مخالف نظریہ اور رویہ تھا ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران سب سے زیادہ نشانہ اسلام اور مسلمانوں کو بنایا تھا۔ سنگھی گروپ کا احساس تھا کہ ڈونالڈٹرمپ عالم اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے قہر ثابت ہوں گے۔ ہندوستان میں نریندر مودی مسلم مخالف شبیہ کیلئے پہلے سے ہی مشہور تھے ۔اس طرح مشرق وسطی میں ٹرمپ مسلمانوں کو نقصان پہونچائیں گے اور ہندوستان کے مسلمان مودی کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ میڈیا میں ٹرمپ اور مودی کی دوستی کے خوب گن گائے گئے۔ ایسا دکھایا جارہا تھا جیسے دنیا میں صرف دو لیڈر ہیں ایک ٹرمپ اور دوسرے مودی۔ امریکی صدر دنیا کے تمام حکمرانوں کو درکنار کرکے صرف مودی کو عزت اور حیثیت دیتے ہیں۔ یہ ثابت کرنے کیلئے بی جے پی آئی ٹی سیل نے کئی ساری فوٹو شاپ کے ذریعہ کئی ساری فرضی تصاویر بھی وائرل کی ۔ لیکن عملی سطح پر ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔ ٹرمپ نے جیتنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے کا آغاز سعودی عرب سے کیا دوسری طرف امریکہ نے ہندوستان کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا اور جب اسے لگاکہ ہندوستان اسے کام نہیں آئے گا تو کنارے لگادیا ۔ مشرق وسطی اور عالم اسلام کو جارج بش اور باراک اوبامہ نے جس قدر نقصان پہونچایا ہے ٹرمپ نے اس کے مقابلے میں وہاں ایسا کچھ ابھی تک نہیں کیا ہے ۔ ہیلری کلنٹن کی وجہ سے مشرق وسطی آج خانہ جنگی کا شکار ہے اور اگر وہ صدر بن جاتیں ہے تو مشرق وسطی کی صورت آج مزید بدتر ہوتی۔ دو سال قبل اپنے اسی کالم میں ہم تفصیلات اس بارے میں لکھ چکے ہیں ۔

ہندوستان نے جنوری 2019 میں ڈونالڈ ٹرمپ کو یوم جمہوریہ کی خصوصی تقریب میں شرکت کی دعوت دی جسے وہائٹ ہاؤس نے مسترد کردیا ۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکہ نے ہندوستان کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔ طالبان کے ساتھ سترہ سالوں تک جنگ لڑنے کے بعد امریکہ مذاکرات کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ میڈیا رپوٹ کے مطابق یہ مذاکرات حتمی مرحلے میں پہونچ چکے ہیں۔ امریکہ نے طالبان کی بیشتر شرطوں کو تسلیم کرلیا ہے جس میں یہ بھی شامل ہے کہ افغان کا جو نیا آئین مرتب ہوگا وہ شریعت کے مطابق ہوگا اور طالبان بھی نئی حکومت کا حصہ بنیں گے ۔ اب صرف امریکی فوج کی واپسی کا اعلان باقی ہے اور یہ تاخیر بھی محض اس لئے ہورہی ہے کیوں کہ امریکہ اپنی فوج کی واپسی باوقار طریقے سے چاہتا ہے۔ افغانستان ہندوستان کیلئے بہت اہم ہے۔ ہندوستان نے وہاں تین بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ افغان کی جدید پارلیمنٹ کی تعمیر ہندوستان کی مرہون منت ہے لیکن مذاکرت کے عمل میں امریکہ نے ہندوستان کو شامل تک نہیں کیا ۔ روس ، چین اور پاکستان کو صرف اس کا حصہ بنایا۔ ہندوستان نے مذاکرت میں شامل نہ کئے جانے پر اعتراض کیا تو امریکہ نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ہندوستان نے وہاں جتنی سرمایہ کاری رکھی ہے اتنا ہم روز افغانستان میں خرچ کرتے ہیں۔

امریکہ کی سیاست اور عالمی امور کے ماہرین اس حقیقت سے واقف ہیں کہ امریکہ کیلئے سب سے عزیز اس کا ذاتی مفاد ہے۔ ہندوستان کا خیال تھا کہ چین کے بڑھتے قدم کو روکنا اور عالمی سیاست میں اس کے اثر و رسوخ کو روکنا امریکہ کی مجبوری ہے اور ایشا میں چین کا مقابلہ صرف ہندوستان کرسکتا ہے، اس لئے امریکہ بہرصورت ہندوستان کے ساتھ رہے گا۔ ہندوستان نے اسی بنیاد پر عالمی دہشت گردی کو ایجنڈا بنایا اور اسی کے تحت پاکستان کو تنہا کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ امریکہ نے ہندوستان سے چین کی سرحد پر میزائل نصب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ امریکہ کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ افغانستان سے امریکی افوج کے انخلاء کے بعد ہندوستان اپنی فوج وہاں تعینات کردے اور امریکی تنصیبات کا تحفظ کرے۔ لیکن یہ ہندوستان کیلئے دونوں جگہوں میں سے کہیں بھی اپنی فوج تعینات کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کی سات لاکھ فوجیں کشمیر میں تعینات ہیں۔ ڈھائی لاکھ فوج شمال مشرق میں تعینات ہیں ۔ بقیہ فوجیں دیگر علاقوں میں مامور ہیں۔ ہندوستان ان جگہوں سے کسی بھی صورت میں فوج نہیں ہٹاسکتا ہے۔

امریکہ نے یہ محسوس کرلیا کہ ہندوستان اس کی منشاء کے مطابق کام نہیں کررہا ہے اور چین کے خلاف وہ اس کی پالیسی کا حصہ نہیں بن رہا ہے اس لئے اس نے پینترا بدلنا شروع کردیا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرت میں شامل نہیں کیا۔ روس سے میزائل S-400 خریدنے پر سخت انتباہ دے رکھا ہے۔ امریکہ نے ایران سے تیل خریدنے پر بھی پابندی عائد کردی ہے اور اب ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستان کے ساتھ جو کیا ہے اس نے مودی سرکاری کی خارجہ پالیسی پر شدید سوالیہ نشانہ لگا دیا ہے اور دنیا بھر میں ہندوستان مذاق بن کر رہ گیا ہے ۔

گذشتہ 23 جولائی کو پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم عمران خان امریکہ کے دورے پر تھے ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے وہائٹ ہاؤس میں ان کی دو گھنٹہ کی ملاقات ہوئی ۔ اس ملاقات کے بعد وہاٹس ہاؤس سے جو اطلاعات سامنے آئی ہیں، اس نے خارجہ پالیسی کی پوری بساط الٹ دی ہے۔ امریکہ ایک مرتبہ پھر پاکستان سے قریب ہوگیا ہے ۔ کئی طرح کی پابندیاں اس نے ہٹادی ہے ۔ فنڈ دوبارہ ریلیز کردیا ہے ۔ عمران خان نے ٹرمپ کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی، جسے انہوں نے قبول کرلیا ہے اور اس طرح تیرہ سالوں کے بعد کسی بھی امریکی صدر کی پاکستان آمد ہوگی۔ کشمیر معاملے پر ٹرمپ نے پاکستانی موقف کے مطابق اپنا کارڈ بھی کھیل دیا ہے ۔ ٹرمپ نے کہاکہ حال ہی میں جاپان میں جی 20 اجلاس ہوا ہے، جہاں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مجھ سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی اپیل کی اور مجھ سے ثالثی کا کردار نبھانے کیلئے کہا ۔

مسئلہ کشمیر ہندوپاک کے درمیان گذشتہ سترسالوں سے الجھا ہوا ہے ۔ ہندوستان اسے شملہ معاہدہ کے مطابق آپس میں سلجھانا چاہتا ہے ۔ اقوام متحدہ اور کسی کی ثالثی کا شروع سے منکر ہے ۔ پاکستان اس میں اقوام متحدہ اور کسی ثالث کی بات شروع سے کرتا آرہا ہے۔ ایسے میں اگر ٹرمپ کی بات سچ مانی جائے تو ہندوستان کی یہ شرمناک شکست اور پاکستان کی سفارتی جیت ہے۔ تاہم ڈونالڈ ٹرمپ اور نریندر مودی دونوں ایسے سربراہان مملکت ہیں جو اپنے ملک میں جھوٹ بولنے کیلئے معروف ہیں اور عوام کی بڑی تعداد ان دونوں کی باتوں پر بھروسہ نہیں کرتی ہے۔ کشمیر معاملے پر ٹرمپ نے جو دعویٰ کیا ہے، اب تک پی ایم مودی نے براہ راست اس کی تردید نہیں کی ہے۔ نہ ہی کسی طرح کا ردعمل انہوں نے دیا ہے۔ وزرات خارجہ کے ترجمان روش کمار نے ٹرمپ کے دعوی کے خلاف بیان دیا ہے کہ کشمیر معاملے میں ہندوستان اپنے پرانے موقف پر قائم ہے۔ مودی نے ایسی کوئی بات نہیں کی ہے لیکن یہاں بھی ٹرمپ کے دعوی کو جھوٹ نہیں کہا گیا ہے ۔ دوسری طرف امریکہ کی وزرات خارجہ نے کہاہے کہ” کشمیر ہندوستان اور پاکستان کا آپسی مسئلہ ہے تاہم اسے جلد سلجھنا چاہیئے ۔ امریکہ ہر طرح کی مدد کیلئے تیار ہے “۔ دونوں طرف کی وزرات خارجہ کا جو بیان سامنے آیا ہے اس سے صاف ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ یا پھر دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹ بول رہاہے لیکن جھوٹ کون بول رہا ہے، اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے ۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اب تک 10 ہزار جھوٹ بول چکے ہیں، اس لئے ان کا بیان معتبر نہیں ہے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم بھی جھوٹ بولنے میں ماہر مانے جاتے ہیں۔ ان کے جھوٹ کو یہاں کے کسی نے اخبار نے اب تک شمار نہیں کیا ہے۔ جس دن شمار کیا جائے گا اس دن بآسانی ٹرمپ کے برابر ہوجائے گا یا اس سے بھی آگے بڑھ جائے گا۔ یہ ایک ایسا پوائنٹ ہندوستانی عوام کے سامنے ہوگا جس میں نریندر مودی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرتے نظر ائیں گے۔ امریکہ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان سے بہتر تعلقات کا اشارہ دے دیا ہے۔ ممکن ہے ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان سے تعلقا ت اس کی مجبوری بھی ہوکیوں کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد جنوبی ایشیاء میں اسے کوئی وفادار ساتھی چاہیئے لیکن پاکستان چین کے ساتھ امریکہ سے کیسے رشتہ ہموار رکھ پائے گا یہ آنے والا وقت بتائے گا فی الحال امریکہ نے ہندوستان کو بیچ منجدھار میں لاکر چھوڑ دیا ہے ۔ 

(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )

stqasmi@gmail.com