قاسم سید
دفعہ 370 کو غیرموثر بنانے اور مکمل ریاست کو مرکز کے زیرانتظام علاقہ تبدیل کرنے کے فیصلوں میں حیران کرنے والی کوئی بات نہیں ہےالبتہ جولوگ آر ایس ایس اور اس کی سیاسی تنظیم بی جے پی کے اغراض ومقاصد سے واقف نہیں ان کے لئے ضرور یہ قدم ناقابل فہم ہوسکتا ہے۔ بی جے پی کی اس بات کے لئے تعریف کرنی ہوگی کہ بغیر کسی جھجک‘سیاسی مصالح کا لحاظ کئے بغیر اسے جو کچھ کرنا ہوتا ہے کرگذرتی ہے۔ راشٹر واد کی صورت ایسا طاقتور ہتھیار اس کے پاس ہے کہ مخالفت کرنے والے براہ راست اینٹی نیشنل اور ملک کے غدار کہہ دئیے جاتے ہیں۔ اس نے کمال حکمت سے سرکار کی مخالفت کو ملک کی مخالفت سے جوڑدیا ہے اور عام آدمی کو یہ بات سمجھانے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔بی جے پی اس کھلاڑی کی طرح ہے جو مکمل فارم میں ہے اور لگاتار چوکے چھکے مار رہا ہے یا اس ہیرو کے مماثل ہے جس کی ہر آنے والی فلم سوکروڑ کے کلب میں شامل ہوجاتی ہے۔ یہ سیکولر پارٹیوں کی طرح منافقت کے پردے استعمال نہیں کرتی اور نہ ہی اصلی ارادوں کو مخفی رکھتی ہے۔ اس کے فیصلوں میں اگر مگر چونکہ‘چنانچہ کی بھول بھلیاں نہیں رہتی۔ دفعہ370 کا خاتمہ دہائیوں سے اس کے ٹاپ ایجنڈے میں رہا جب موقع ملا کام کر دکھایا۔ تین طلاق پر پابندی کا ارادہ تھا اکثریت ملی تو یہ کام بھی ہوگیا۔ اب اگلا نشانہ رام مندر کی تعمیر ہے۔ ظاہر ہے کوئی پارٹی یہ ہمت نہیں دکھاسکتی کہ وہ رام مندر کی مخالفت کرسکے کیونکہ وہ آئین وقانون کی پاسداری تو کب کی فراموش کرچکی ہیں۔ وہ ہندومخالف ہونے کا داغ کیسے جھیل سکتی ہیں۔ نہرو کے زمانہ میں رکھی جانے والی مورتیاں‘ راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں تالہ کھلنے اور نرسمہارائو کی حکومت میں بابری مسجد انہدام کے واقعات کا آخری باب لکھاجارہا ہے۔ مان لیجئے کہ اگر فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آیا تب بھی وہ اس مقام پر مسجد نہیں بناسکتے۔ سیکولر کہی جانے والی پارٹیاں اتنی بونی‘بزدل ‘نکمی اور شکستہ دل ہیں کہ ان سے کسی بھلے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ پت جھڑ کی طرح ان کے سرکردہ لیڈر بی جے پی کی آندھی کا حصہ بن رہے ہیں۔ فرقہ پرستوں اور نام نہاد سیکولر سٹوں کے درمیان کی لکیر مٹ چکی ہے۔ نظریہ‘ شرم ولحاظ اور غیرت وحمیت کے الفاظ ایک ہزار کے نوٹ کی طرح اپنی معنویت اور افادیت کھوچکے ہیں۔
کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ بھلے ہی وطن عزیز اعلانیہ طور پر ہندو راشٹرنہیں ہے لیکن عملا بہت پہلے سے ہے۔
حالات مخصوص رخ پر جارہے ہیں‘سرکار کا ہر فیصلہ اس کے ذہنی رویہ کا عملی اظہار ہے۔ بی جے پی اپنے کور ایجنڈے پر صدق دلی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ تین طلاق بل‘ یو اے پی اے میں ترمیم‘ دفعہ 370 کے خاتمہ کے بعد اب اس کا ایشو رام مندر کی تعمیر ہے جس کے دو راستے ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ رام مندر کے حق میں آیا تو کوئی بات نہیں۔بصورت دیگر پارلیمنٹ کا راستہ اپنایا جائے گا‘ اس میں کسی کو شک نہیں ہوناچاہئے۔ این آر سی کے نام پر آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے آگے پورے ملک پر نافذ کرنے کے ارادے ہیں۔ مدارس کے تعلق سے جونظریہ ہے وہ مخفی نہیں یعنی سب کچھ آئینہ کی طرح صاف ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہونا کیا چاہیئے وطن عزیز کے وفادار شہری اور ملت کا حصہ ہونے کی حیثیت سے کیاراستہ اپنایا جائے کہسیاسی و ملی وجود کو برقرار رکھا جاسکے۔ ہمیں اپنی سادہ لوحی کا صدقہ اتارنا چاہئے جو آج بھی سیکولرکہی جانے والی پارٹیوں کے قدموں میں لونڈی بن کر بیٹھی ہوئی ہے۔ ہم نے کبھی نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش نہیںکی۔ کانگریس کی غیر مشروط وفاداری کے ہر پانچ سال میں تجدید عہدکے ساتھ فکر و عمل کے تمام روشندان بند کردئیے۔ ان سوراخوں کو بھی جمودیت پسندی کی مٹی سے بھر دیا ہے جہاں سے سوچنے سمجھنے والی ہوائوں کے درآنے کا امکان ہو۔ انتخابی سیاست کی جو راہ حضرت مولانا آزادنے آزادی کے فور ی بعد سجھائی تھی‘ بھیڑوں کی طرح آنکھ بند کرکے اس پر چلتے رہے ہیں‘ بیدار قوموں کی طرح حالات کے مطابق مزاج اور رویہ میں لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یقینی طور پراس زمانے کے لحاظ سے وہ حکمت عملی سو فیصد درست تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نفرت‘تشدد اور تعصب کی بارود کئی دہائیوں سے کھولی جارہی تھی جس کو مبینہ سیکولر پارٹیاں ہوا دیتی رہیں کیونکہ ان کا مقصد پورا ہو رہا تھا۔ شاید ان کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ صورت حال ان کے کنٹرول سے باہر نکل گئی ہے اور جس شیر کی سواری کر رہے ہیں وہ ان کو ہی لقمہ بنائے گا۔
اب جبکہ سیکولر پارٹیوں کے قلعوں میں شگاف پیداہوگیا ہے۔ اینٹیں سرک رہی ہیں اور نہیں لگتا کہ وہ جلدہی خود کو سنبھال سکیں گی۔ جن پر بھروسہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔جس دیوار کا سہارا لے رکھا تھا وہ ریت کی ثابت ہوئی۔ ماب لنچنگ جیسے واقعات نے فکر مندی اور تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ شرعی امور میں مداخلت کا راستہ بند کرنے میں سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مسلم جماعتیں بھی ناکام رہی ہیں۔ صدر جمہوریہ کے پارلیمنٹ سے مشترکہ خطاب میں حلالہ اور تعدد ازدواج پر بھی قانون سازی کا اشارہ ہے یعنی یہ بھی مودی سرکار کے ایجنڈے میں ہے۔ سیاسی طور پر حاشیہ پر دھکیل دیاگیا۔ حالیہ لوک سبھا الیکشن میں مسلم نمائندے وہیں سے جیتے ہیں جہاں مسلم آبادی 30 فیصد یا اس سے زائد ہے یعنی انہیں کہیں بھی ہندو ووٹ نہیں ملا۔ اب صرف سیاسی نسبندی ہی نہیں شرعی محاذ پر بھی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس پرفتن حالات میں کہیں سے کوئی رہنمائی نہیں مل رہی ہے ۔ ہماری افرادی ومالی قوت مختلف عناوین سے ہونے والی کانفرنسوں اور دیگر لایعنی مصروفیات میں جھونکی جارہی ہے۔ مدارس سے تبلیغ واشاعت دین کے سپاہی کے بجائےمسلکی مین پاور تیار کرر ہی ہے۔ سوشل میڈیا پر استعمال کی جانے والے زبان‘بیان و تقاریر سے ہماری ذہنی واخلاقی قوت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ بے چین فکر اور حالات سے برگشتہ ومشتعل مسلم نوجوانوں کو راہ دکھائی جائے انہیں بتایا جائے کہ وہ کیا کریں جن فوجوں کے سہارے اپنی لڑائی لڑتے رہے ہیں انہوں نے محاذ چھوڑ دیا یا فاتح طاقتوں سے مل گئیں تو ہم آگے کی لڑائی کس کے سہارے لڑناچاہیں گے ’یہ ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ ایسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ شریعت میں چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں دیں گے‘ جیسی لفاظی اپنااثر کھوچکی ہے ۔ سب کچھ ببانگ دہل ہورہا ہے۔ظاہر ہے چیخنے چلانے کی نہیں خاموشی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے مگرراستہ کیا ہو‘وہ ہمیں ہی ڈھونڈنا ہوگا۔ پانی تو یہیں سے نکلے گا‘ چشمہ تو یہیں سے پھوٹے گا۔ شرط یہ ہے کہ استقلال کے ساتھ ایڑیاں رگڑی جائیں۔ مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بس بہتر راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔ پرانی لکیریں پیٹنے کی بجائے نئی لکیرکھینچنا اور نئی راہیں ڈھونڈنا وقت کا عین تقاضہ ہے۔