این آرسی عمل دوبارہ شروع کرنے اور ری ویری فیکشن سے سپریم کورٹ کا انکار

مرکز اور آسام حکومت کو سخت دھچکا، این آرسی حتمی فہرست 31 / اگست شائع کرنے کی ہدایت

سپریم کورٹ کایہ فیصلہ آسام کے مظلوم عوام کی کامیابی ہے: مولانا ارشد مدنی 

نئی دہلی: آج سپریم نے آسام شہریت معاملہ میں مرکز اور آسام حکومت کو زبردست دھچکا دیتے ہوئے این آرسی عمل دوبارہ شروع کرنے اور ری ویری فیکشن کرانے کی ہدایت دینے سے انکارکردیا، اور کہا کہ این آرسی کی حتمی فہرست میں شامل ناموں کو 31/اگست تک شائع کیا جائے، چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس ایف نریمن کی دورکنی بنیچ نے معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آسام این آرسی کے اعداوشمار کی حفاظت کے لئے آدھارجیسے مناسب نظام کا ہونا ضروری ہے، عدالت نے کہا کہ این آرسی کے عمل کو قانونی چیلنجوں کی بنیادپر دوبارہ شروع کرنے کاحکم نہیں دیا جاسکتا، ہم بتادیں کہ این آرسی کا حتمی مسودہ 30/جولائی 2018کو جاری ہوا تھا جس تقریبا چالیس لاکھ لوگوں کے نام شامل ہونے سے رہ گئے تھے، واضح ہوکہ غیر قانونی شہریوں کی شناخت کے لئے آسام میں 1985سے نافذ آسام معاہدہ سے مطابق 24/مارچ 1971کی نصف شب تک آسام میں داخل ہونے والے لوگوں اور ان کی اگلی نسلوں کو ہندوستانی شہری تسلیم کیا جائے گا، این آرسی عمل مکمل ہونے کہ بعد 31/سمبر 2017کو این آرسی کا پہلا جزوی مسودہ 2.90کروڑ ناموں کے ساتھ شائع ہوا تھا، اس کے بعد جو حتمی مسودہ جاری ہوا اس میں 3.29کروڑ درخواست دہنگان نے 2.89کروڑ کے نام شامل تھے بعدازاں فہرست سے باہر کئے گئے لوگوں کے لئے آبجکشن اورکلیم کا عمل شروع ہوا، گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے مرکز اور آسام حکومت کی طرف سے ایک اپیل داخل کرکے کہا گیا تھا کہ نئی فہرست جامع اور درست ہونی چاہئے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس میں تمام جائز افرادکے نام شامل کئے جائیں، اور غیر قانونی طورپر مقیم شہریوں کی نشاندہی کرکے ان کے ناموں کو فہرست سے خارج کردیا جائے اس تعلق سے اپیل میں بنگلہ دیش سے متصل اضلاع میں 20فیصد اور باقی اضلاع میں دس فیصد ناموں کے دوبارہ تصدیق کی اجازت طلب کی گئی تھی، مگر عدالت نے اس طرح کی اجازت دینے سے یکسر انکارکردیا، اور کہا کہ یہ ساراعمل شہریت قانون کی دفعہ 3اور دفعہ 6-Aکے تحت مکمل ہوا ہے، دوبارہ این آرسی عمل شروع کرنے اور ناموں کی دوبارہ تصدیق کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی، گزشتہ سماعت میں دوالگ الگ معاملوں پر بحث ہوئی تھی، جس میں جمعیۃعلماء ہند اور آمسو کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل، سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید اور وکیل آن ریکارڈ فضیل ایوبی نے بحث میں حصہ لیا تھا.

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولاناسید ارشدمدنی نے آج کے فیصلہ پر اپنا ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ آسام کے مظلوم عوام کی ایک بڑی کامیابی ہے، انہوں نے آگے کہا کہ اس فیصلہ سے آسام میں ان فرقہ پرست طاقتوں کو سخت مایوسی ہاتھ لگی ہے جو این آرسی کے عمل کو نہ صرف مشکوک بنانا چاہ رہے تھے بلکہ طرح طرح کے قانونی روڑے اٹکاکر عام لوگوں میں ڈراور خوف پیداکرنے کی کوشش کررہے تھے، مولانا مدنی نے کہا کہ روز اول سے ہمارااور جمعیۃعلماء ہند کا موقف صاف ہے کہ جو غیر ملکی ہیں ایماندرانہ طورپر ان کی شناخت ہو اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی ہونی چاہئے مگرجو اس ملک کے حقیقی شہری ہیں ان کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی اور ناانصافی نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ یہ انتہائی حساس مسئلہ ہے، جو لوگوں کی زندگی اور موت سے جڑاہوا ہے انہوں نے آگے کہاکہ ہم انسانیت کی بنیاد پر مذہب سے اوپر اٹھ کر تمام متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے قانونی جدوجہد کررہے ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ اس قانونی جدوجہد میں ہمیں مسلسل کامیابی مل رہی ہے انہوں نے امید ظاہر کی کہ اب این آرسی حکام سپریم کورٹ کے اس تازہ فصلہ کی روشنی میں اپنے فرائض کی انجام دہی کریں گے اور متاثرین کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اپنائیں گے۔