ہندوستان میں مسلم حکومت کے خاتمہ کے بعد مسلمانوں نے بیک وقت دو محاذپر کام کرنا شروع کیا ۔ ایک طرف مسلمانوں نے حصو ل تعلیم پر خصوصی توجہ دی ۔دوسری طرف انہوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کی تحریک چھیڑی ۔ حصول تعلیم کی جانب جن شخصیات نے مسلمانوں کی توجہ مرکوز کی اور ایک صدی آگے کی جانب دیکھتے ہوئے تاریخی تعلیمی ادارہ قائم کیا ان میں حجة الاسلام مولانا محمد قاسم ناناتوی اور سر سید احمد خان رحمہما اللہ کے نام سرفہرست ہیں ۔دونوںبزرگوں نے ایک درسگاہ اینگلو عربک اسکول سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد اس میدان میں تاریخی کانامہ انجام دیا ۔ مولانا محمد قاسم ناناتوی نے امت مسلمہ کیلئے دینی اور اسلامی علوم حاصل کرنے کی راہ ہموار کی ،دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا جس کے بعد اسلامی علوم کے حصول کا سلسلہ شروع ہوگیا ،جگہ جگہ مدرسے قائم ہوئے جہاں اسلامی تعلیم وتربیت دی جانے لگی ۔ سر سید احمد خان نے عصر ی تعلیم کے میدان کا انتخاب کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کی بنیاد رکھ کرجدید تعلیم سے آراستہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔ آج کے ہندوستانی مسلمانوں کیلئے یہی دوفکر سب سے اہم اور کامیابی کی ضمانت ہیں ۔ لاکھوں مدارس اور اسکولس کے ذریعہ امت مسلمہ میں تعلیمی اور فکری بیداری کی مہم جاری ہے ۔
اسی فکر اور مہم کا ایک حصہ مدرسہ عزیز مظہر العلوم ہے جو بہار کے سیتامڑھی ضلع میں نانپور تھانہ کے تحت مرزاپور گاﺅں میں واقع ہے ۔ یہ مدرسہ 1988 میں قائم ہواتھا،مختلف حالات سے گزرتے ہوئے یہ ادارہ اب ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرچکاہے ۔ گذشتہ چندسالوں سے اس ادارہ کے اہتمام اور انتظام کی ذمہ داری نوجوان عالم دین ،متعدد کتابوں کے مصنف مفتی مجاہد الاسلام قاسمی سنبھال رہے ہیں ۔ان کے معاونین میں نائب مہتمم جناب قاری امجد صاحب اور دیگر کئی علماءوحفا ظ کرام ہیں ۔
مدرسہ عزیزیہ مظہر العلوم ترقی کی جانب رواں دواں ہے ۔ تعلیمی اور تربیتی معیار قابل ستائش ہے ۔ تقریبا ساڑھے تین سو سے زائد طلبہ یہاںسے استفادہ کررہے ہیں ۔ 60 سے زائد طلبہ دارالاقامہ میں ہیں جن کے طعام وقیام ،علاج ومعالجہ اور دیگر تمام امور کی کفالت ادارہ کے ذمہ ہے ۔
یہ ادرہ 1988 میں قائم ہواتھا تاہم گردش ایام کا شکار ہوگیا ۔اب 2013 سے اس کی ذمہ داری مفتی مجاہد الاسلام قاسمی سنبھال رہے ہیں ۔ان کے مہتتم بننے کے بعد مدرسہ نے مختصر سے عرصہ میں قابل ذکر ترقی کی ہے ۔ تعلیمی معیار بلند ہوا ہے ۔ حفظ وناظرہ کی تعلیم کی علاوہ ابتدائی فارسی کی بھی تعلیم شروع ہوگئی ہے ۔ بچوں کی تربیت کا انداز نرالا اور قابل تحسین ہے ۔ تعمیری شعبہ میں بھی مدرسہ نے نمایاں ترقی حاصل کی ہے ۔ جب مولانا کے ہاتھوں میں یہ مدرسہ آیاتھا تو یہاں کوئی قابل ذکر عمارت نہیں تھی تاہم اب یہاں ایک شاندار مسجد کی تعمیر ہوچکی ہے ۔ مسجد کے بائیں جانب ایک وسیع وعریض دارالاقامہ کی بھی تعمیر ہوچکی ہے ۔ درس گاہ کی تعمیر کا سلسہ جاری ہے ۔ یہاں کے اساتذہ محنتی ،مخلص اور بچوں کے تئیں ہمدرد ہیں ۔ اساتذہ کی تنخواہ کا معیار بھی عمدہ اور قابل ستائش ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اساتذہ خلوص کے ساتھ بچوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں یہ ایک مثالی ادارہ بنے کی جانب گامزن ہے ۔
سب سے اہم یہ ہے کہ یہ دارہ آئینی تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہے ۔موجودہ حالات کو بھانپتے ہوئے اور دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے ایک ٹرسٹ رجسٹر ڈ کراکر مدرسہ کا نظام چلایاجارہاہے ۔ مدرسہ کے نام سے باضابطہ بینک اکاﺅنٹ اور دووسرے دستاویزات بھی ہیں تاکہ ادارے کوکسی طرح کی دشواری کا سامنانہ کرناپڑے ۔ حکومت اور انتظامیہ غیر ضرروی طور پر پریشان کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔
اگست2019 میں راقم الحروف کو بھی اس ادارے کا دورہ کرنے کا موقع مل چکاہے ۔ تعلیم ،تربیت ،قیام ،طعام سمیت تمام امور بحسن خوبی یہاں انجام دیئے جاتے ہیں ۔بہار کے معروف عالم دین حضرت مولانا محمد اظہار الحق مظاہری صاحب دامت برکاتہم مہتمم جامعة عربیہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی بہار اور مولانا محمد اشتیاق مظاہری مہتمم مرکزی قاسم العلوم برہروار کی سرپرستی حاصل ہے ۔ بلامبالغہ یہ مدرسہ ایک مثال اور نمونہ ہے جس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتاہے اور ہم عصر مدارس یہاں سے کچھ اخذ کرکے اپنے یہاں نافذ کرسکتے ہیں ۔
ادارہ کی دن دوگنی کامیابی ،ہمہ جہت ترقی اور بے مثال کامرانی کیلئے ہماری نیک دعائیں اور تمنائیں ذمہ داران ،اساتذہ اور معاونین کے ساتھ ہے ۔ اللہ تعالی اس ادارہ کو زیادہ سے زیادہ کامیابی ،ترقی اور بلندی نصیب فرمائے ۔
شمس تبریز قاسمی