اسرائیل کے عزائم ناقابل برداشت !

اسرائیل کے عزائم ناقابل برداشت !
فلسطینیوں کی اراضی ضبط کی جارہی ہے، مکانات گرائے جارہے ہیں، علما پر حملے کیے جارہے ہیں، ہمارے شہریوں کو ان کے مکانوں سے بے دخل کیا جارہا ہے : صدر محمود عباس
نیو یارک:  فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے اس بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کی جس میں انہوں نے وادی اور مقبوضہ مغربی کنارہ کے کچھ حصوں کوصہیونی ریاست میں ضم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو کے اس بیان پر سخت الفاظ میں مذمت کی ہے، جس میں انہوں نے وادیِ اردن اور مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم یہودی بستیوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
صدر محمود عباس نے کہا کہ ‘مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کی اراضی ضبط کی جارہی ہے، مکانات گرائے جارہے ہیں، علما پر حملے کیے جارہے ہیں، ہمارے شہریوں کو ان کے مکانوں سے بے دخل کیا جارہا ہے، مسجد الاقصیٰ اور كنيسة القيامة (ہولی سپلشر چرچ) کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے’۔
انھوں نے کہاکہ ‘دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں اسرائیل کی پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجے میں بین الاقوامی قانون شدید خطرے سے دوچار ہوگیا ہے’۔
حمود عباس نے جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ‘اگر کسی بھی اسرائیلی حکومت نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا تو تمام سمجھوتے اور ان کے ضوابط کو معطل کردیا جائے گا اور ان کی کوئی پاسداری نہیں کی جائے گی’۔
محمود عباس نے بیت المقدس (یروشلیم) کا حوالہ دیا جہاں اسرائیل نے ہر اس چیز کے خلاف جنگ مسلط کررکھی ہے جو فلسطینی ہے۔
عباس نے جنرل اسمبلی کے ہال میں موجود عالمی رہنماؤں کی توجہ اسرائیل کی چیرہ دستیوں کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ ریاست یروشلیم میں فلسطینیوں کو ان کے مقدس مقامات میں عبادت سے روک رہی ہے، اور ان کی آزادانہ نقل وحرکت پر پابندیاں عاید کررہی ہے۔
انھوں نے اس ضمن میں پرمٹ نظام کا حوالہ دیا، جس کے تحت غربِ اردن میں رہنے والے فلسطینیوں کو القدس الشریف میں جانے کے لیے اسرائیلی حکومت سے پیشگی اجازت لینی ہوتی ہے۔
صدر عباس نے خطاب کے دوران مشرقِ وسطیٰ کے دیرینہ تنازع کے دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا اور کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اقدامات اور پالیسیز نے دو ریاستی حل کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
انھوں نے امریکہ کے سنہ 2017 میں یروشلیم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور وہاں اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا اور واضح کیا کہ ‘یروشلیم فلسطین کا بدستور دائمی دارالحکومت رہے گا’۔
انھوں نے فلسطین کو سنہ 2012 میں ‘غیر رکن مبصر ریاست’ کا درجہ دینے پر خوشی کا اظہار کیا اور بین الاقوامی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ اب اس کو مکمل رکن کا درجہ دیں۔
انھوں نے کہاکہ ‘مجھے کوئی بھی ایک جواز پیش کیجیے کہ ہم اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے کیوں حق دار نہیں ہیں’۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں