امریکی سینیٹرز کا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ

اسلام آباد7اکتوبر ( آئی این ایس انڈیا )
امریکی کانگریس کے وفد نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا ہے اور بھارت کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد کی صورتحال، عوامی جذبات سے آگاہی اور ذمینی حقائق کا جائزہ لیا ہے۔سینیٹر کرس وان ہولین اور سینیٹر میگی حسن پر مشتمل امریکی کانگریس کے وفد نے مظفر آباد کا دورہ کیا جبکہ پاکستان میں تعینات امریکی ناظم الامور پال جونز وفد کے ہمراہ تھے۔پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق دورے کا مقصد بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی 5 اگست کی خصوصی حیثیت کے یکطرفہ خاتمے کے بعد کی زمینی صورتحال کا جائزہ لینا اور عوامی جذبات کا اندازہ کرنا تھا۔خیال رہے کہ بھارت نے امریکی سینیٹر کرس وان ہولین کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے دورے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔کشمیر جانے کی اجازت نہ ملنے کے بعد بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کرس وان ہولین کا کہنا تھا کہ وہ کشمیر کا دورہ کر کے وہاں کے زمینی حقائق جاننا چاہتے تھے مگر بھارتی حکومت نے یہ کہہ کر اجازت نہیں دی کہ وادی کا دورہ کرنے کا یہ وقت درست نہیں ہے۔نئی دہلی کی جانب سے امریکی سینیٹر کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت نہ دینے پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی سینیٹر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کرنے کی پیشکش کی۔دفتر خارجہ سے جاری اعلامیہ کے مطابق امریکی سینیٹرز نے پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان اور وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر سے ملاقات کی جس میں کشمیری قیادت نے وفد کو تنازعہ کے تاریخی پس منظر، بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر میں کرفیو کے نفاذ اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے آگاہ کیا۔صدر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر نے امریکی کانگریس کے وفد سے بھارت کے اقدامات سے کشمیریوں کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق مظفر آباد میں پاکستان کی فوج کے میجر جنرل عامر کی جانب سے وفد کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر موجود صورتحال پر تفصیلی بریفنگ بھی دی ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے اعلامیہ میں کہا کہ بھارت کی حکومت کی جانب سے غیر جانبدار مبصرین کو جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا گیا جس سے بھارت کا سب کچھ ٹھیک ہے کا پروپیگنڈہ بے نقاب ہوا ہے۔ان کے بقول امریکی سینیٹرز کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کہیں بھی جانے کی آزادی تھی۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ امریکی وفد اپنے مشاہدے سے دنیا کو حقائق سے ا?گاہ کرے گا۔اعلامیہ کے مطابق امریکی سینیٹرز نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق خدشات سے امریکی کانگرس کو آگاہ کریں گے اور بھارت پر کشمیر میں کرفیو اٹھانے اور تمام قیدیوں کو رہا کرنے پر زور دیں گے۔اس سے قبل ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار الزبتھ وارن نے کشمیر میں مواصلات پر پابندی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔امریکہ کی سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ امور نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کشمیر میں جاری صورت حال کو انسانی بحران قرار دیا ہے اور اسے فوری طور پر دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اسلام آباد7اکتوبر ( آئی این ایس انڈیا )
امریکی کانگریس کے وفد نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا ہے اور بھارت کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد کی صورتحال، عوامی جذبات سے آگاہی اور ذمینی حقائق کا جائزہ لیا ہے۔سینیٹر کرس وان ہولین اور سینیٹر میگی حسن پر مشتمل امریکی کانگریس کے وفد نے مظفر آباد کا دورہ کیا جبکہ پاکستان میں تعینات امریکی ناظم الامور پال جونز وفد کے ہمراہ تھے۔پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق دورے کا مقصد بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی 5 اگست کی خصوصی حیثیت کے یکطرفہ خاتمے کے بعد کی زمینی صورتحال کا جائزہ لینا اور عوامی جذبات کا اندازہ کرنا تھا۔خیال رہے کہ بھارت نے امریکی سینیٹر کرس وان ہولین کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے دورے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔کشمیر جانے کی اجازت نہ ملنے کے بعد بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کرس وان ہولین کا کہنا تھا کہ وہ کشمیر کا دورہ کر کے وہاں کے زمینی حقائق جاننا چاہتے تھے مگر بھارتی حکومت نے یہ کہہ کر اجازت نہیں دی کہ وادی کا دورہ کرنے کا یہ وقت درست نہیں ہے۔نئی دہلی کی جانب سے امریکی سینیٹر کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت نہ دینے پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی سینیٹر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کرنے کی پیشکش کی۔دفتر خارجہ سے جاری اعلامیہ کے مطابق امریکی سینیٹرز نے پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان اور وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر سے ملاقات کی جس میں کشمیری قیادت نے وفد کو تنازعہ کے تاریخی پس منظر، بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر میں کرفیو کے نفاذ اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے آگاہ کیا۔صدر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر نے امریکی کانگریس کے وفد سے بھارت کے اقدامات سے کشمیریوں کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق مظفر آباد میں پاکستان کی فوج کے میجر جنرل عامر کی جانب سے وفد کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر موجود صورتحال پر تفصیلی بریفنگ بھی دی ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے اعلامیہ میں کہا کہ بھارت کی حکومت کی جانب سے غیر جانبدار مبصرین کو جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا گیا جس سے بھارت کا سب کچھ ٹھیک ہے کا پروپیگنڈہ بے نقاب ہوا ہے۔ان کے بقول امریکی سینیٹرز کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کہیں بھی جانے کی آزادی تھی۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ امریکی وفد اپنے مشاہدے سے دنیا کو حقائق سے ا?گاہ کرے گا۔اعلامیہ کے مطابق امریکی سینیٹرز نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق خدشات سے امریکی کانگرس کو آگاہ کریں گے اور بھارت پر کشمیر میں کرفیو اٹھانے اور تمام قیدیوں کو رہا کرنے پر زور دیں گے۔اس سے قبل ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار الزبتھ وارن نے کشمیر میں مواصلات پر پابندی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔امریکہ کی سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ امور نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کشمیر میں جاری صورت حال کو انسانی بحران قرار دیا ہے اور اسے فوری طور پر دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اسلام آباد7اکتوبر ( آئی این ایس انڈیا )
امریکی کانگریس کے وفد نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا ہے اور بھارت کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد کی صورتحال، عوامی جذبات سے آگاہی اور ذمینی حقائق کا جائزہ لیا ہے۔سینیٹر کرس وان ہولین اور سینیٹر میگی حسن پر مشتمل امریکی کانگریس کے وفد نے مظفر آباد کا دورہ کیا جبکہ پاکستان میں تعینات امریکی ناظم الامور پال جونز وفد کے ہمراہ تھے۔پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق دورے کا مقصد بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی 5 اگست کی خصوصی حیثیت کے یکطرفہ خاتمے کے بعد کی زمینی صورتحال کا جائزہ لینا اور عوامی جذبات کا اندازہ کرنا تھا۔خیال رہے کہ بھارت نے امریکی سینیٹر کرس وان ہولین کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے دورے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔کشمیر جانے کی اجازت نہ ملنے کے بعد بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کرس وان ہولین کا کہنا تھا کہ وہ کشمیر کا دورہ کر کے وہاں کے زمینی حقائق جاننا چاہتے تھے مگر بھارتی حکومت نے یہ کہہ کر اجازت نہیں دی کہ وادی کا دورہ کرنے کا یہ وقت درست نہیں ہے۔نئی دہلی کی جانب سے امریکی سینیٹر کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت نہ دینے پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی سینیٹر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کرنے کی پیشکش کی۔دفتر خارجہ سے جاری اعلامیہ کے مطابق امریکی سینیٹرز نے پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان اور وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر سے ملاقات کی جس میں کشمیری قیادت نے وفد کو تنازعہ کے تاریخی پس منظر، بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر میں کرفیو کے نفاذ اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے آگاہ کیا۔صدر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر نے امریکی کانگریس کے وفد سے بھارت کے اقدامات سے کشمیریوں کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق مظفر آباد میں پاکستان کی فوج کے میجر جنرل عامر کی جانب سے وفد کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر موجود صورتحال پر تفصیلی بریفنگ بھی دی ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے اعلامیہ میں کہا کہ بھارت کی حکومت کی جانب سے غیر جانبدار مبصرین کو جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا گیا جس سے بھارت کا سب کچھ ٹھیک ہے کا پروپیگنڈہ بے نقاب ہوا ہے۔ان کے بقول امریکی سینیٹرز کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کہیں بھی جانے کی آزادی تھی۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ امریکی وفد اپنے مشاہدے سے دنیا کو حقائق سے ا?گاہ کرے گا۔اعلامیہ کے مطابق امریکی سینیٹرز نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق خدشات سے امریکی کانگرس کو آگاہ کریں گے اور بھارت پر کشمیر میں کرفیو اٹھانے اور تمام قیدیوں کو رہا کرنے پر زور دیں گے۔اس سے قبل ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار الزبتھ وارن نے کشمیر میں مواصلات پر پابندی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔امریکہ کی سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ امور نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کشمیر میں جاری صورت حال کو انسانی بحران قرار دیا ہے اور اسے فوری طور پر دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

SHARE