بین الاقوامی نسائی ادبی تنظیم بنات نے اپنا دوسرا یوم تاسیس ممبئی میں منایا، آل انڈیا سیمینار و مشاعرے کا انعقاد‬

‬  بین الاقوامی نسائی ادبی تنظیم ‘ بنات ‘ نے اپنے دوسرے یوم تاسیس کے موقعے پر ایک روزہ نیشنل سیمنار و مشاعرے کا انعقاد عروس البلاد ممبئ مہاراشٹر میں کیا ۔ ملک کی اٹھارہ اسٹیٹ سے پینتیس خواتین قلمکاروں نے شرکت کی۔

ممبئی:31 اکتوبر 2019 کو حج ہاوس آڈیٹوریم میں اس تقریب کا شاندار اہتمام کیا گیا اردو کارواں ممبئ نے اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں سخنے قدمے تعاون کیا۔
مجبان اردو اور ادب کے پرستاروں سے کھچا کھچ بھرا ہال جلسے کی کامیابی کی گواہی دے رہاتھا۔ممبئ و اطراف سے کثیر تعداد میں لوگون نے شرکت کی۔
حج ہاوس ممبئی کے شاندار آڈیٹوریم میں نسائی ادب سمت و رفتار کے عنوان کے تحت ۳۱ اکتوبر کو ایک سیمنار و مشاعرے کا اہتمام کیا گیا موقع تھا بنات یعنی بین الا اقوامی نسائی ادبی تنظیم کا دوسرا یوم تاسیس .انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ منائی گئی اس تقریب میں بنگال ، بہار ، اتر پردیش ، دہلی، راجستھان ،کشمیر، اتراکھنڈ ،حیدر آباد ، کرناٹکہ، مہاراشٹر ، مدھیہ پردیش غرض ہندستان بھر سے اہل قلم بہنیں اور مہمان رونق افروز تھے۔
سیمنار کا آغاز تلاوت کلام پاک سے مجید الدین صاحب نے کیا جو بنات کی ممبر نفیسہ انا کے شوہر ہیں انہوں نے جن دعائیہ آیتوں کا انتخاب کیا وہ بھی زبردست رہا اور سب نے آمین کہا۔
افتتاحی اجلاس زیر صدارت محترمہ قمرجمالی (حیدرآباد، سرپرست، بنات) ہوا اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر ریحانہ احمد ۔ (ایکزیکیوٹو چیئر پرسن ،گرلز بورڈ آف ایجوکیشن ۔انجمن اسلام ۔ممبئی) شریک ہوئیں۔ کلیدی خطبہ : ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی ( سرپرست ،بنات) مہمانان ذی وقار: محترم جناب نور الحسنین (اورنگ آباد)۔ جناب فاروق بخشی (حیدر آباد) مہمانان اعزازی : جناب مقصود احمد خان (سی ای او ۔ حج کمیٹی آف انڈیا) جناب فرید خان (صدر ،اردو کارواں ۔ممبئی)جناب احمد رانا ( کار گذار صدر مہاراشٹر اردو اکیڈمی ) جناب سلام بن رزاق (ممبئی) جناب اسلم پرویز (ممبئی) جناب الیاس شوقی (ممبئی) جناب سید فاروق (ممبئی)جناب قاسم امام ( ممبئی ) جناب مولا بخش ( علی گڑھ) جناب اسلم جمشید پوری (میرٹھ) جناب خورشید حیات ( چھتیس گڑھ) نے بناتی بہنوں کی کاوشیں دلجمعی سے سنیں اور اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے بنات کی تعریف و توصیف کی جھڑی لگا دی .ساتھ ہی کئی مفید مشوروں سے نوازا۔
مشاعرہ:
تسنیم جوہر صاحبہ (حیدر آباد) صبیحہ سنبل صاحبہ (علی گڑھ) قمر سرور صاحبہ (احمد نگر) ۔محترمہ وسیم راشد (دہلی)(فریدہ رحمت اللہ صاحبہ (بنگلور) آصف اظہار صاحبہ ( علی گڑھ ) شہناز رحمت صاحبہ (کولکاتہ) نفیسہ سلطانہ انا صاحبہ (بھوپال) شمشاد جلیل شاد صاحبہ ( پونے )نفیسہ حیا صاحبہ (احمد نگر) ثریا جبیں صاحبہ (پٹنہ) طلعت سروہا صاحبہ (سہارن پور)ان کے علاوہ مقامی شاعرات عذرا خانم اور نعیمہ امتیاز(ممبئی) بنات کے لئے قیمتی دریافت ثابت ہوئیں ۔
شاعر حضرات نے بھی اس محفل شعر و سخن میں حصہ لیا جناب فاروق بخشی جناب مولا بخش جناب قاسم امام صاحب نے اپنے سنجیدہ کلام سے مشاعرے کو وقار بخشا سامعین نے دل کھول کر داد دی اور یہ محفل رات ساڑھے گیارہ بجے تک جاری رہی۔
اس سے قبل نثری سیشن میں انشائیے ، مقالے اور کہانیاں پڑھی گئیں ۔ مراٹھی ادب میں کا تانیثی چہرہ ، محترمہ صادقہ نواب کا عمدہ مقالہ رہا ٓمحترمہ آمنہ تحسین (حیدر آباد ) نے ہمیشہ کی طرح ایک جامع مقالہ پیش کیا ۔اسود گوہر اورنگ آباد) شمع افروز زیدی (دہلی) غزالہ بی (رامپور) نے بھی عمدہ مقالے پیش کئے ۔
ڈاکٹر ثروت خان (ادے پور) نے بڑے ڈرامائی انداز میں کہانی سنائی حاضرین نے خوب داد دی سفینہ کا بھی کہانی پیش کرنے کا انداز خوب پسند کیا گیا محترمہ شبینہ فرشوری (حیدر آباد)اور۔شاداب علیم (میرٹھ)نے بھی اپنا عمدہ افسانہ پیش کیا۔
محترمہ نعیمہ جعفری پاشا کے طنزو مزاح سے لبریز مضمون میں جہاں حاضرین جلسہ بے ساختہ مسکرائے وہیں ڈاکٹر افشاں ملک کے فکاہیے اور زنفر کھوکر کے انشائئے نے انہیں قہقئے لگانے پر مجبور کر دیا ۔
تین سیشن میں نظامت کے فرائض انجام دئے ڈاکٹر شبانہ خان ،محترمہ وسیم راشد اور افشاں ملک نے جبکہ سیدہ تبسم ناڈکر نے پہلے اجلاس کے بعد شکرئے کی رسم ادا کی دوسرے میں راقم اور مشاعرے کے بعد ڈاکٹر نگار عظیم نے اپنی مدلل تقریر مٰن تمام باتوں کو سمیٹ لیا۔ شام کو سات بجے سے مشاعرہ رکھا گیا۔ممبئی کے محبان اردو ٓخر آخر تک موجود رہے ۔اس موقعے پر دو شعری مجموعے بھوپال سے تشریف لائیں محترمہ نفیسہ سلطانہ انا کا دیوان انا اور احمد نگر سے تشریف لائیں محترمہ قمر سرور کا اور ستارہ بن جا کا اجرا عمل میں آیا ساتھ ہی بنگلور سے شامل ہوئیں زریں شعائیں کی مدیر محترمہ فریدہ رحمت اللہ کا ناول درد کی دہلیز کی بھی رسم رونمائی ادا کی گئ۔اس موقعے پر بنات کی جنرل سیکریٹری تسنیم کوثر نے کہا کہ ہرجلسہ ہمیں نئ سیکھ دے جاتا ہے ۔اس بار بھی کئ سبق ملے جو آنے والے پروگرامز میں کام آئیں گے۔لیکن مجھے کہنے دیجئے ممبئ کا جلسہ اب تک کا سب سے کامیاب جلسہ تھا۔رہی سہی کسر گل بوٹے کے فاروق سید صاحب نے اپنے آفس اور اسٹوڈیو میں ایک شاندار اور یادگار ادبی نشست ساتھ میں روائتی لنچ یعنی دال گوشت اور بگھارے چاول کی ضیافت سے پوری کر دی ۔انہوں نے کہا کہ بنات ایک کنبہ ہے اور اسکی عظمت و توقیر اسکے ہر فرد کی ترقی میں مضمر ہے۔ بنات کی اپنی ٹیم مضبوط ہو اور بنات سے وابستہ اراکین ایک ایک ستون کی طرح ایستادہ ہوں اس کے لئے ضروری تھا کہ انکے شہر میں جایا جائے اور انھیں سپورٹ کیا جائے۔ایک اور مقصد اس قدم سے وابستہ ہے وہ یہ فکر کہ بنات اردو اور دوسری ہم وطن زبانوں کے بیچ برج کیسے بنائے ۔در حقیقت ہندستانی معاشرے کو صالح افراد سونپنے والی جو گود ہے یعنی خواتین وہ مختلف زبان و تہذیب کی پروردہ ہونے کے باوجود ایک مشترکہ تہذیب کی پاسدار ہیں یعنی ہندستانی تہذیب ۔زمانے کے سردو گرم سے اس ہنستے بستے معاشرے میں کچھ غلط فہمیوں کےکیکٹس اُگ آئے ہیں، کچھ گڑھے تھے جو اب کھائی بن گئے انکی طرف توجہ نہ دی گئی تو آنے والی نسلیں ہمیں شاید معاف نہ کریں ۔اے پین از مائٹئر دین دا سوارڈ تو سب فالو کر رہے ہیں لیکن یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ یہ تلوار ہماری صدیوں پرانی کثرت میں وحدت کی علامت ہمارے ملک کی اس اسپائن پہ تو وار نہیں کر رہی جس نے ہمیں اب تک ایک قوم کے منصب پر فائز کر رکھا ہے ؟ کہیں ہمارا معاشرہ مفلوج ہوکر اپنی اجتماعی ذمہ داری کے احساس سے عاری تو نہیں ہو رہا؟ بنات اس ذمہ داری کو سمجھنے کی کوشش کاہی نام ہے ۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ ہندستانی معاشرے میں اردو ایک بائنڈنگ فورس ہے ۔یہ زبان سفر کرتی ہے کل بہار ، اتر پردیش اس کا محور تھے آج مہاراشٹر ، کرناٹکہ ، آندھرا اس کا گہوارہ ہیں۔
اردو ادب کے پلیٹ فارم پہ دوسری ہندستانی زبانوں کے قلمکاروں کو بلانا ان سے انکی کاوشیں سننا ان سے رو برو ہونا اور مثبت ماحول میں تبادلۂ خیال کرنا ایک اہم کام ہے ،لوگ کر بھی رہے ہیں کچھ ادارے بھی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں توبنات بھی اپنے حصے کا کام کرنا چاہتی ہے.بین الاقوامی نسائی ادبی تنظیم بنات وقت کی ضرورت ہے اسے علمی و سماجی اہداف تک رسائی کے لئےشخصی و علمی اداروں سے تعاون درکار ہے۔