احمد علی صدیقی
ہمارا ملک ہندوستان قدیم زمانہ سے ہی سونے کی چڑیا کہلاتاہے۔یہ ایک وسیع وعریض ملک ہے اور مختلف آب وہوا ،معدنیات اور قدرتی وسائل کے علاوہ یہاں کی صنعت وحرفت اور دستکاریاں دوردورتک مشہور تھیں۔ایک عرصہ درازتک غیرملکیوں کی نگاہیں اس پر جمی تھیں اور انہیں قدرتی وسائل اور دستکاریوں کی تلاش میں انگریز تاجر بن کر ہمارے ملک میں داخل ہوئے اور آخر کار اپنی مکاری اور چالبا زی کو بروئے کار لاکر اس ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بن گئے اور ہمارا ملک ان کا غلام اورہماری قوم ان کی محتاج بن کررہ گئی۔
انگریزوں کے تقریبا دوسو سالہ دور اقتدارنے ہمارے ملک کو سیاسی،سماجی اور اقتصادی طور پر بے حد کمزور کردیا تھا ، یہاں کی صنعتیں برباد ہوگئیں، دولت اور خزانے سب انگلستان چلے گئے، ہمارے ملک میں پیدا ہونے والا مال جہازوں میں بھر بھر کر انگلستان کے کارخانوں میں بھیجاجاتاا ور وہاں کے تیار شدہ مال ہندوستان کی منڈیوں میں لاکر بڑے مہنگے داموں میں فروخت کرکے منافع حاصل کی جاتی ۔اس طرح ہماری صنعت وحرفت اورتجارت کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا، اور انگریز چال باز یہاں داد عیش دینے لگے۔چھوٹی ریاستوں کے باشندوں کو آپس میں لڑاکر اور پھوٹ ڈالکر انگریزوں نے اپنا الو سیدھا۔
بالآخر غیرت مند محبان وطن کی غیرت بیدار ہوئی اورجلد ہی ان کی سازشوں سے آگاہ ہوکر مادر وطن کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرانے کی خاطر بڑی جدوجہداور قربانیاں پیش کیں۔ خاص کر علماء کرام نے آزادی کے لئے تن من دھن کی بازی لگادی اور آزادی کی خاطر غلامی کو موت پر ترجیح دی۔ ٹیپو سلطان، شجاع الدولہ، مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا حسرت موہانی اور گاندھی جی جیسے بہادر اور جانباز وں نے جان ہتھیلی پر رکھکر انگریزوں سے مقابلہ کیا اور انہیں ناکوچنے چبانے پر مجبور کردیا۔ چار وناچار فرنگیوں کو سرزمین ہند سے جانا پڑا اور پندرہ اگست 1947عیسوی کو ہمارا ملک ہندوستان آزاد ہوا اور ۲۶؍ جنوری 1950کوہندوستان کا دستور جمہوری بنااور ہم ایک آزاد اور جمہوری ملک کے باشندے بن گئے۔
ہماری آزادی اورجمہوریت کے ستر سال ہوگئے پھر بھی ہم آزاد نہیں ہیں، اس جمہوری اور آزاد ملک میں مسلمانوں کے ساتھ غیرجانبدارانہ برتاؤ کیا جارہاہے، مسجدیں منہدم کی جارہی ہیں ، ہمارے شعائر پر پابندی کا مطالبہ کیاجارہاہے،مسلم پرسنل لا کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں، اور افسوس جن مدارس کے فرزندوں نے اس ملک کوآزاد کرانے کے لئے تن من دھن کی بازی لگادی آج انہیں مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیا جارہاہے،اور ان کے فرزندوں کو دہشت گردثابت کرکے جیلوں میں ڈالنے کی ناپاک کوششیں کی جاری ہیں، فرقہ پرست لیڈران مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں ، مگر نہ پولیس اس کے خلاف کارروائی کرتی ہے ،نہ قانون ان کی گردن پکڑ رہاہے اور نہ ہی حکمراں اس سلسلے میں کوئی مؤثر کردار ادا کررہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ فرقہ پرست عناصر ہندوستانی قانون سے بالکل آزاد ہیں اور وہ اپنے دل کی بھڑاس جس طرح چاہے نکالیں کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔
ہمارے اسلاف نے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ جس ملک کو ہم نے خون جگر سے سینچاہے وہ ملک آزادی کے بعد ہماری قربانیوں کو فراموش کردے گا، اوراسی ملک میں ہمارے فرزندوں کا جینا دوبھر کرکے انہیں آزادی سے محروم کردیا جائے گا۔
ہندوستان اور اس کی آزادی میں ہمارا اتنا ہی حصہ ہے جتنا کہ دیگر قوموں کا ، اسلئے ہم یہاں پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل پیرا رہیں گے جس کا ملک کی دستور اور قانون نے ہمیں عطافرمایا ہے۔ہم اپنے شعائرکی حفاظت کرتے رہیں گے۔ ہمیں نہ تو مسلم پرسنل لا میں ترمیم منظور ہے اور نہ ہی یکساں سول کوڈ ہمارے لئے قابل قبول ہے۔جب تک ہرمذہب کے ماننے والوں کو مذہبی اور ذہنی آزادی نہیں ملتی تب تک یہ سونے کی چڑیا کہلانے والا ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتاہے۔
آج ہمارے ملک کی اقتصادی حالت کافی خراب ہے،افسوس ہمارے ملک کے فرقہ پرست لیڈران نے مندر ومسجد کے نام پر فساد پھیلاکر ملک کو معاشی اور اقتصادی طور پر کافی کمزور کردیاہے۔ضرورت ہے ملک کو از سرنو تعمیر کرنے کی ، ہندو مسلم، سکھ، عیسائی سب یک ساتھ ملکر ملک کی ترقی کے لئے کوشاں ہوں اور اس کی کھوئی ہوئی شان واپس لانے کی کوشش کریں تاکہ ہم بڑے فخر کے ساتھ کہ سکیں۔ع
ساے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار ماہنامہ پیام سدرہ چنئی (مدراس)تمل ناڈو میں مینیجنگ ایڈیٹر ہیں )