قلم اٹھاؤ!

 

قلم اٹھاؤ

اداس لوگو !

اداسیوں کا لباس تن سے اتار پھینکو

اے خواہشوں کے اسیر لوگو !

حقیقتوں سے نظر نہ پھیرو

کئی سسکتی ہوئی سی بے سود خواہشوں کا 

جو آج نوحہ سنا رہے ہو

اسی پہ رونا شعار تم نے بنالیاہے 

ذرا بتاؤ !

کہ خواب تکنا 

انہیں میں جینا 

انہیں میں شام وسحر بِتانا

عجب نہیں ہے

قلم اٹھاؤ !

حقیقتوں کا صفحہ نکالو

اور اس پہ لکھّو کہ بھوک کیا ہے 

یہ ننگ کیاہے

اگر تمھیں اس جہانِ فانی کی چاہتوں سے 

ملے جو فرصت 

تو آنکھ کھولو !

ضرور لکھو فضاؤں کے دکھ 

ہواؤں کے دکھ 

وہ بیٹیوں کی رداؤں کے دکھ

غریب لوگوں کے خواب لکھّو

تمام ان کے عذاب لکھّو

خیال کی اس عجیب و کمزور ایک دنیا میں جینے والو !

تمھیں تو ہجر و وصال لکھنا ہے 

اور پھولوں کو گال لکھنا ہے 

حسن کو لازوال لکھنا ہے 

زلف ، عارض ، یہ نین ،کنگن

انھیں کو تم نے کمال لکھنا ہے

تم کو کیاغم 

محبتوں کے غموں کو تم نے عظیم غم جو بنالیا ہے

جو مفلسی کی اذیتوں کے عذاب ٹوٹے تو کیاکروگے

سو اس سے پہلے ہی آنکھ کھولو 

نہ خواب دیکھو !

جو زندگی کو ترس رہے ہیں 

کبھی تو ان کے عذاب لکھّو

قلم اٹھاؤ 

اداس لوگو !

فوزیہ ربابؔ

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں