ملک کے فوجی سربراہ جنرل بپن راوت جو31 دسمبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں انہوں نے بیان دیا ہے جس کے بعد ملک میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا ہم پاکستان اور چین کے راستے پر چلنے کی تیاری کر رہے ہیں
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرہ جاری ہیں۔ ملک کا ایک بڑا طبقہ جہاں ان مظاہروں کے ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے وہیں ایک طبقہ وہ بھی ہے جو ان مظاہروں کی تنقید کر رہا ہے اور خود کو حکومت کے ساتھ کھڑا دکھانا چاہتا ہے۔ ملک کے فوجی سربراہ جنرل بپن راوت جو چند روز بعد یعنی 31 دسمبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں انہوں نے ایک ایسا بیان دیا ہے جس کے بعد ملک میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا ہم پاکستان اور چین کے راستے پر چلنے کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ وہاں کی فوج حکومت اور سیاسی معاملات میں سیدھی مداخلت کرتی ہے۔ جنرل بپن راوت نے آج جو بیان دیا ہے ’’وہ لیڈر نہیں ہوتے جو لوگوں کو غلط سمت میں رہنمائی کرتے ہیں۔ جیسا ہم دیکھ رہے ہیں کہ عوام اور یونیورسٹی و کالج طلباء کی قیادت شہروں میں تشدد اور توڑ پھوڑ کر نے کے لئے رہنمائی کر رہی ہے۔ یہ قیادت نہیں ہے۔‘‘
#WATCH Army Chief Gen Bipin Rawat: Leaders are not those who lead ppl in inappropriate direction. As we are witnessing in large number of universities&colleges,students the way they are leading masses&crowds to carry out arson&violence in cities & towns. This is not leadership. pic.twitter.com/iIM6fwntSC
— ANI (@ANI) December 26, 2019
Never before have we had a CoAS as openly politicized as this one (not even VK Singh).
When the Army Chief & prospective Chief Of Defense Staff starts commenting so blatantly on civilian issues, it bodes very dangerously for democracy.
His political ambitions need curbing. https://t.co/3Fx0SGLQCP
— Saket Gokhale (@SaketGokhale) December 26, 2019
واضح رہے اس سے پہلے کبھی کسی فوجی سربراہ نے ملک کے اندورنی سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کی ہے اور بہت سے لوگوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ سابق فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ جو موجودہ حکومت کے وزیر بھی ہیں انہوں نے بھی اپنے دور میں کبھی ملک کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کی۔ ان کے اس بیان کی تنقید کرنے والے لوگوں نے کہا ہے کہ ان کا ملک کے سیاسی ماحول پر بیان دینا جمہوریت کے لئے خطرناک ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی ان کی سیاسی خواہشات پر لگام لگائے۔ ہندوستانی آئین کے مطابق فوج کو منتخب مرکزی حکومت کی رہنمائی میں کام کرنا ہوتا ہے اور اس کو بر سر اقتدار سیاسی جماعت کے نظریہ اور سیاسی فیصلوں کے تئیں غیر جانبدار رہنا ہوتا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنرل بپن راوت کی طرح حال ہی میں ایسٹرن آرمی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل انل چوہان نے بھی سیاسی بیان دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا ’’موجودہ (نریندر مودی) حکومت سخت فیصلہ لینا چاہتی ہے جو لمبے عرصہ سے التوا کے شکار تھے۔ کچھ شمال مشرقی ریاستوں کے تحفظات کے با وجود حکومت شہریت ترمیمی بل پاس کرانے میں کامیاب رہی۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ دن دور نہیں جب بائیں بازو کے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی ہونی ہے۔‘‘ جس دن انہوں نے یہ بیان دیا اسی دن ایک فوجی دستہ کو سیول انتظامیہ کی شہریت ترمیمی قانون کے خلا ف ہونے والے مظاہروں میں مدد کرنی تھی۔
مجلس اتحاد لمسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے جنرل بپن راوت کے بیان پر اپنے رد عمل میں ٹوئٹ کیا ’’قیادت کو اپنے دفتر کی حدود کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ قیادت کا مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھے عوامی بالادستی کو اور جس ادارہ کی آپ سربراہی کر رہے ہیں اس کی سالمیت کا تحفظ کرنے کو۔‘‘ کانگریس کے سینئر رہنما دگ وجے سنگھ نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ’’جنرل صاحب میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ وہ قائد نہیں ہوتے جو بھیڑ کی لوٹ مار میں قیادت کرتے ہیں لیکن وہ بھی قائد نہیں ہوتے جو اپنے پیروکاروں کو فرقہ وارانہ فساد میں نسل کشی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ کیا آپ مجھ سے اتفاق کرتے ہیں جنرل صاحب؟
Leadership is knowing the limits of one’s office.
It is about understanding the idea of civilian supremacy & preserving the integrity of the institution that you head https://t.co/qqbxgGj72j
— Asaduddin Owaisi (@asadowaisi) December 26, 2019
"Leaders Not Those Who Lead Masses In Arson": Army Chief On Citizenship Protests
I agree General Saheb but also Leaders are not those who allow their followers to indulge in Genocide of Communal Violence. Do you agree with me General Saheb? https://t.co/rOo0vFGMIf— digvijaya singh (@digvijaya_28) December 26, 2019
جنرل بپن راوت نے اگر یہ بیان برسر اقتدار حکومت کو خوش کرنے کے لئے دیا ہے اور ان کی نظر ریٹائر منٹ کے بعد کچھ سیاسی فائدوں پر ہے یا ان کی نظر نئے چیف آف ڈفینس اسٹاف کے عہدے پر ہے تو اس کے خطرناک نتائج ہوں گے۔ اگر ان کے اس بیان کا ایسا کوئی مقصد نہیں ہے تو بھی یہ ملک کے لئے بہت نقصان دہ ہے کیونکہ فوج کو اگر اقتدار اور سیاسی معاملات کا نشہ لگ گیا تو پھر وہ دن دور نہیں جب ہم پاکستان اور چین جیسے ہو جائیں جہاں تمام طاقت فوج کے پاس ہے۔