پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر مسلم دنیا بھنور میں پھنسی ہوئی ہے،قیامت خیز منظرہے ،المناک صورت حال ہے ،ہولناکی ،تباہی اور بربادی کے سایے میں صبح وشام گزررہے ہیں،امن وسکون کا دوردورتک کہیں کوئی نام ونشان نہیں ہے ،اپنے آباؤ اجدادکی سرزمین پربموں کی برسات ہورہی ہے ،اپنے وطن میں دھماکوں کی گونج ہے ،ہر طرف موت ہی موت نظر آتی ہے ،زندگی کی آس میں وطن سے باہر قدم رکھنے پر بھی سکون نہیں مل پاتاہے ،کہیں کانٹے بچھاکر راستے روک دیئے جاتے ہیں،کہیں زنجیروں میں جکڑ کر ہلاک کردیا جاتاہے ،کہیں باڈر پر گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا جاتاہے ،کبھی پوری کشتی سمند ر میں غرقاب ہوجاتی ہے ،گذشتہ ایک سال کے دوران ملک شام کے دومعصوم بچوں کی تصویر اس پوری صورت حال کی منظر کشی کررہی ہے ،ایک تصویر حال ہی میں سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی عمران السوری کی ہے جس نے دنیائے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ،پانچ سالہ معصوم بچہ ایمبولینس کی کرسی پر اس حال میں بیٹھاہوا ہے کہ اس کے چہرے خون آلود ہیں،جسم پر زخموں کے نشان ہیں،وہ کچھ بولنے کی ہمت نہیں کرپارہاہے ،دوسری تصویر سال گذشتہ جاری ہونے والی ایلان کردی کی ہے جو ترکی کے ایک ساحل پر بے یارومدد گار اوندھے منہ پڑا ہواہے ،پانی کی طغیانی میں بہتے ہوئے وہ بچہ سمندر کے کنارے پہونچ جاتاہے ،پہلی تصویر بتارہی ہے کہ شام میں رہے گو تو عمران السوری کی طرح تم پر بم بر سائے جائیں گے دوسری تصویر یہ کہ رہی ہے کہ اگر زندہ رہنے کیلئے یورپ کا رخ کرتے ہو تو ایلان کردی کی طرح سمندر میں غرق کردیئے جاؤگے ،نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن۔
یہ دوتصویر شام سے متعلق ہے لیکن مسئلہ صرف شام کا نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کا ہے ،شام میں گذشتہ چھ سالوں سے جاری بحران میں چار لاکھ سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں،اپاہجوں اور زخمیوں کی تعداد 12 لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ایک کڑور 70 لاکھ آبادی بری طرح متاثر ہے ، فصلیں مدتوں سے بارود نے بھسم کردی ہیں، اناج ناپید ہوچکا ہے، انسانی المیہ اتنا دہشت ناک ہے کہ اُسے دیکھنا اور بیان کرنا بہت بڑے حوصلے کا طلبگار ہے، شامی مسلمان چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار سمندروں میں بھٹکتے پھررہے ہیں۔عراق انسانی آبادی کے بجائے قبرستان میں تبدیل ہورہاہے ،پہلے امریکی فوج کی براہ راست بم باری اور قتل وغارت گری ہوئی،اب داعش کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام ہورہاہے ، 2003 کے بعد سے اب تک بارہ لاکھ سے زائد مسلمانوں کا وہاں قتل ہوچکا ہے ۔ یمن میں حوثی باغیوں اور عرب اتحاد کے درمیان جاری جنگ میں ہزاروں بے گناہ مررہے ہیں،فلسطین کی دردناک کہانی اپنی جگہ موجود ہے ،بچوں ،بیواؤں ،عورتوں اور نوجوانوں کاقتل اسرائیلی ایجنڈا میں سرفہرست ہے ،مصر میں اسلام پسندوں اور اخوان المسلمین کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ اب تک جاری ہے ،لیبامیں تشددکے خاتمہ اور متحدہ حکومت کے قیام کی ہر کوشش ناکام ہوچکی ہے ،عرب بہاریہ کا آغاز کرنے والا ملک تیونس خوداب تک استحکام نہیں پاسکا ہے ،ایران اور سعودی عرب مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے مسلکی جنگ میں مبتلا ہیں اور امریکہ کی دہلیز پر تعاون کیلئے دستک دے رہے ہیں،اردن میں امن وامان کا فقدان ہے ،افغانستان کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے ،پاکستان دہشت گردی کی عفریت میں مبتلاہے ،بنگلہ دیش پاکستان کے نقش قدم پر گامزن ہے ،مشرق وسطی کی طرح اب ترکی میں بھی مسلسل دہشت گردانہ حملے ہورہے ہیں،دنیا کے 57 مسلم ممالک میں سوائے چندکے سبھی انتشار ،خلفشار اور بدامنی کے شکار ہیں ، جہاں مسلم حکومتیں نہیں وہاں بھی مسلمان آلام ومصائب کے دور سے گزررہے ہیں،برماکے روہنگیا مسلمانوں پر زمین تنگ ہوچکی ہے ،یورپ اور امریکہ میں مسلمان مسلسل نفرت اور تشدد کے شکار ہیں،کشمیر میں مسلمان موت وحیات کے بیچ زندگی گزاررے ہیں،گزشتہ 48 دنوں سے جاری کرفیونے ان کی زندگی جہنم بناکر رکھ دی ہے ، ہر روز مسلم ممالک میں بم دھماکے ہورہے ہیں،خودکش حملے ہورہے ہیں،بڑی تعداد میں مسلماں جاں بحق ہورہے ہیں،لیکن یہ خبربھی ہم پر موثر نہیں ہوتی ہے ،میڈیا میں روزمرہ کی طرح یہ خبر جگہ پاتی ہے ،اردو اخبارات بھی حسب معمول بین الاقوامی پیج پر یہ خبر شائع کرتے ہیں،میری باتوں پر اگر یقین نہیں آرہاہے تو العربیہ کی ویب سائٹ کھول کر دیکھا لیا کیجئے وہاں روزانہ مشرق وسطی کے دوتین ملکوں میں بم دھماکہ اور کم ازکم چالیس پچاس افراد کے جاں بحق ہونے کی خبریں رہتی ہیں،ہاں یورپ اور امریکہ میں دوچار کے مرنے کی بھی خبر آتی ہے تو پوردی دنیا میں ہنگامہ مچ جاتاہے ،تعزیتی خطو ط کا انبار لگ جاتاہے ،اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں سنسنی پھیل جاتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کی اس صورت حال کیلئے ذمہ دار کون ہے ،کون مسلم ممالک کو تباہ وبرباد کررہاہے ،اس کا جواب ہر کوئی آسانی کے ساتھ یہ دے گا کہ امریکہ اور یورپ ذمہ دار ہے ،مسلمان صلیبی اور صہیونی سازش کے شکار ہیں،اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کومٹانے کے درپے لگی ہیں،جواب درست ہے ،یہ بات مسلم ہے اور اس میں نیا پن کچھ بھی نہیں ہے ،اسلام کے خلاف روز اول سے صلیبی ،صہیونی سازش جاری ہے ،ہر دور میں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی گئی ہے ،لیکن انہیں سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ،دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اسلام کا دائرہ مدینہ منورہ کی سرحد سے نکل کر پوری دنیا میں پہونچا ہے ،حجاز کی سے سرزمین سے نکل کر ایشاء ،افریقہ اور یورپ تک مسلمانوں نے حکومت کا پرچم لہرایا ہے ،قیصروکسی جیسی سپر پاور طاقتوں کو سرنگوں کیا ہے ،دنیا کے نصف رقبہ پر حکومت کی ہے ،آج اگر ہم مغلوب ہیں،ہم پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں،آلام ومصائب اور دردناک مظالم کے دورسے گزررہے ہیں، ان کی سازشوں کے شکار ہورہے ہیں، ان کا مقابلہ نہیں کرپارہے ہیں ،ہماری قوت دفاع ہیچ ثابت ہورہی ہے، تو اس کیلئے ذمہ دار ہم خود ہیں کوئی اور نہیں ،مشرق وسطی کی تباہی وبربادی ، مسلم ممالک میں جاری انتشار وخلفشار اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی ذلت ورسوائی ہماری بد اعمالی ،ناقص سیاسی حکمت عملی، دفاعی کمزوری ،آلات جنگ سے محرومی ، قرآنی تعلیمات اورشرعی اصولوں سے انحراف کا سبب ہے ۔قرآن کریم میں اللہ رب العالمین کا وعدہے :وانتم إلاعلون ان کنتم مومنین (آل عمران 139) تم ہی سربلند رہوگے اگر تم صحیح مومن بن جاؤ ۔دوسری طرف قرآن کریم کے اکیسویں پارہ میں واضح طور پریہ بھی ارشاد فرمایاگیا ہے کہ بحر وبر میں فساد برپا ہونے کی وجہ لوگوں کے خودکردہ اعمال ہیں ۔
قرآن کریم کی آیات کریمہ،امت مسلمہ کی تاریخ اور ماضی کے حالات واقعات واضح طور پریہ بتلارہے ہیں کہ ہم مسلمانوں کی بدترین حالت ،ہماری جہالت وپسماندگی ،پوری دنیا میں بے وقعتی ،ذلت ورسوائی ،قتل وغارت گری،مسلم ممالک میں جاری بدامنی ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے ،ہمارے گناہوں کی سزا ہے ،ہم نے قرآن کے اصولوں کو نہیں اپنایا ہے ،محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر ہم عمل پیر انہیں ہیں،حضرات صحابہ کرام کو ہم نے اپنا آئیڈیل نہیں بنایا ہے،خلفاء راشدین کی سیاست کو ہم نے نمونہ تسلیم نہیں کیا ہے ، اسلام کو ہم نے اپنا ضابطہ حیات نہیں بنایا ہے ،شریعت کے آئین سے ہم روگردانی کررہے ہیں،اسی لئے تباہی،بربادی اور قتل وغارت گری ہمارا مقدر بنی ہوئی ہے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا،شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
(کالم نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com