نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
ہندوستان میں فسادات اور مسلم مخالف حملوں کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ آزادی سے لیکر ابھی تک مسلم مخالف فسادات کا سلسلہ جاری ہے ۔ مختلف مواقع پر مختلف شہروں میں مسلمانوں کا قتل عام ہواہے ۔ مسلمانوں کے گھر لوٹے گئے ہیں ۔ مسلمانوں کے مکانات جلائے گئے ہیں ۔ ان کی دکانیں تباہ و برباد کی گئی ہیں ۔ مساجد، مدارس اور دیگرم مذہبی مقامات پر حملہ ہوتا رہا ہے اور ہرجگہ فساد میں پولس کا بھی رول نمایاں اور واضح ہوتاہے ۔ پولس دنگائیوں پر قابو پانے کے بجائے اس کا ساتھ دیتی ہے۔ خواہ جمشید پور فساد ہو ۔ نیلی کا قتل عام ہو ۔ بھاگلپور فساد ہویا پھر 2002 کا گجرات قتل عام ۔ ہر ایک فساد اور قتل عام میں مسلمانوں کا جانی ،مالی نقصان ہواہے ۔ یہی معاملہ 2020 کے دہلی فساد کا ہے ۔ یہاں بھی مسلمانوں پر یکطرفہ حملہ ہوا ۔ ان کی دکانوں کو جلایا گیا ۔ مکانوں کو لوٹا گیا ہے اور پھر آگ کے حوالے کردیاگیا ۔ اس پورے فساد میں دہلی پولس نے بھی دنگائیوں اور فسادیوں کا ساتھ دیا ۔
پولس کی ذمہ داری اور ڈیوٹی امن وآشتی برقرار رکھنا ۔ لائن اینڈ آڈر کو کنٹرول کرنا اور ملک کا امن و امان خراب کرنے والوں کو قانون کے شکنجے میں کسناہے لیکن بھارت میں مسلسل ا س کی خلاف ورزی ہورہی ہے ۔ آئین کا احترام ختم ہوچکاہے ۔ قانون کا ڈر نہیں رہ گیاہے اور جن کی ذمہ داری قانون کا نفاذہے وہ خود قانون کی اب دھجیاں اُڑا رہے ہیں ۔
دلی فساد نے ایک مرتبہ پھر سارے فسادات کی تاریخ تازہ کردی ہے ۔ پولس اور انتظامیہ کے کردار پر سوال اٹھنا شروع ہوگیاہے اور سب سے اہم سوال یہی ہے کہ فسادات کے مجرموں کو سزا کیوں نہیں ملتی ہے ۔ مظلوموں کے ساتھ انصاف کیوں نہیں ہوتاہے ۔ کیا بھاگلپور فساد کے مجرموں کو سزا مل گئی ؟۔ کیا مظلوموں کو انصاف مل گیا ؟ ۔ 2002 کے گجرات فسادات میں جو لوگ ملوث تھے انہیں سزا مل گئی ؟ ۔ مظلوموں کو انصاف مل گیا ؟ جن پولس اہلکار اور افسران نے فساد کو انجام دیاتھا ان کے کردار کی جانچ ہوگئی ؟ ۔ کیا مظفر نگر فسادا ت کے مجرموں کو سزا مل گئی ؟۔ کیا ان کے خلاف چارج شیٹ داخل ہوگئی ؟۔ ہر سوال کا جواب نہیںمیں ملے گا آخر کیوں ؟ فسادات کے مجرموں کو سزا کیوں نہیں مل رہی ہے ۔ دنگائیوں کے خلاف حکومت ایکشن کیوں نہیں لیتی ہے ؟ کیوں ہمیشہ بھارت میں ہندو مسلم کرایا جاتا ہے ؟ کیا ہندو مسلم فسادات بھارت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے ؟ کیا اس طرح کے فسادات سے ملک کا نقصان نہیں ہوتاہے ؟۔
شمالی مشرقی دہلی میں جو فساداور قتل عام ہواہے اس کے پیچھے کئی سارے اسباب و عوامل کارفرما ہیں لیکن سب سے اہم دلوں میں قانون کا خوف واحترام نہ ہونا اور دنگائیوں کو پولس کا ساتھ ملناہے ۔ اس فساد کے پیچھے ملک کی میڈیا کا بھی ہاتھ ہے جس نے پچھلے پانچ سالوں میں صرف نفرت کو پھیلانے اور ہندو مسلم سماج کو بانٹنے کا کام کیاہے ۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ دہلی بھارت کی راجدھانی ہے ۔ یہاں پارلیمنٹ ہاؤس ہے ۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ہے ۔ راشٹر پتی بھون ہے ۔ تمام بڑے محکمے ہیں ۔ فو ج کی بڑی تعداد یہاں موجود ہوتی ہے ۔ پولس کی بڑی نفری ریزرو میں ہوتی ہے ۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سمیت تمام اہم سیاسی رہنما اور اعلی افسران کا دہلی مرکز ہے اس کے باوجود دہلی میں تین دنوں تک فساد ہوتارہاہے ۔ انسانوں کا قتل عام ہوا ۔ دکانوں کو جلایا گیا ۔ مکانوں کو لوٹا گیا ۔ منہدم کیاگیا اور ہر طرح سے نقصان پہونچایاگیا ۔ تین دنوں تک یہ سب ہوتارہاہے لیکن حکومت اور انتظامیہ نے اس پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
اس فساد نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو ایک مرتبہ پھر شدید نقصان پہونچایا ہے ۔ ہند و مسلم یکجہتی کو خطرے میں ڈال دیاہے۔ مخصوص کمیونٹی کے دل میں اکثریتی طبقہ کا خوف بیٹھانے کی کوشش ہوئی ہے ۔ یہ تاثر دیاگیاہے کہ مسلمان اکثریتی طبقہ کے رحم وکرم پر ہیں ۔ انہیں ایک دائرے میں رہنا ہوگا۔ اگر وہ مخصوص دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حکومت وقت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں اس کا شدید انجام بھگتنا ہوگا ۔کیا یہ جمہوریت ہے ؟ کیا یہ سیکولرزم ہے ؟ کیا یہ ڈیموکریسی ہے ؟ کیا اقلیتوں کے ساتھ انصاف ہے ؟ کیا یہ اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری ہے ؟۔
ہندوستان کی آزادی میں ہند ومسلم سکھ عیسائی، آدی واسی اور سبھی دھرم وذات لوگ شریک تھے ۔ ملک کا دستور ی جمہوری اور سیکولر ہے ۔ اس ملک پر سب کا برابر کا حق ہے ۔ یہاں صدیوں سے مختلف مذاہب کے ماننے والے آباد رہے ہیں ایسے میں یہ تاثر دینا کہ یہ ملک صرف ہندؤوں کا ہے ۔ مسلمان اور عیسائی دوسرے درجہ کے شہری ہیں ۔ یہ ملک کی ہزاروں سال پرانی تاریخ ، کلچر اور ثقافت کے خلاف ہے ۔ یہ جمہوریت اور آئین کی مخالفت ہے ۔ ایسی کوشش ملک کے کیلئے مضر اور ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔
ملک کے آئینی اداروں بالخصوص عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کرے ۔ اپنی خود مختاری اور آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے ملک کے نظام چلانے میں فعال کردار ادا کرے ۔الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جگموہن لال سنہا جیسا کردار اپنانے کی ضرروت ہے جنہوں نے انصاف کے ترازو کو جھکنے نہیں دیا اور اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خلاف فیصلہ دیا ۔ یہ فیصلہ معمولی نہیں تھا لیکن آنجہانی جج نے عدلیہ کا احترام باقی رکھا ۔ قانون کے سامنے کسی عہدہ ،منصب اور حکومت کو نہیں دیکھا ۔ یہ فیصلہ ملک کی عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو بڑھاتا ہے ۔ مظلوموں اور کمزوروں کو حوصلہ دیتاہے ۔ عوام چاہتے ہیں کہ عدلیہ میں آج وہی حوصلہ ، وہی انصاف اور روایت دہرائی جائے۔حالیہ دنوں میں جسٹس مرلی دھرن نے بھی انصاف قائم کرنے کی کوشش کی ۔ عدلیہ کا وقار اور احترام برقرار رکھتے ہوئے دلی فساد پر سخت رخ اپنا یا تاہم حکومت وقت کو یہ برداشت نہیں ہوسکا اور راتوں رات ان کا ٹرانسفر کردیاگیا ۔ عام زبان میں اسے کہاجاتاہے کہ عدل و انصاف قائم کرنے والے جج کو اس کی قیمت چکانی پڑی ۔ بہر حال جسٹس مرلی دھرن نے جو کچھ کیا وہ قابل مثال اور مشعل راہ ہے ۔ انجام سے گھبرائے بغیر انصاف کا قیام ملک اور دیش کی ترقی کیلئے ضروری ہے اور اسی راہ پر سبھی ججز کو چلنے کو ضرروت ہے ۔
دنگے ،فساد اور تشدد سے ہمیشہ گنگاجمنی تہذیب کو نقصان ہواہے ۔ ملک کی یکجہتی کو نقصان پہونچا ہے ۔ ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کا نقصا ن ہواہے ۔ دلوں میں دور یاں پیدا ہوئی ہے ۔ عام شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے ۔ ان کے دکان اور مکان برباد ہوئے ہیں اور اس کے بدلے میں کچھ لوگوں نے سیاست چمکائی ہے ۔ کچھ کو کرسیاں ملی ہے ۔ اس لئے عوام میں بیداری اور انہیں اس کے نقصانات کا احساس ہونا ضروری ہے ۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ فسادا ت کو روکے ۔ پولس اپنا کام ذمہ داری کے ساتھ انجام دے ۔دنگائیوں کا ساتھ دینے کے بجائے دنگائیوں کے خلاف ایکشن لے ۔ ملک میں امن وشانتی کو یقینی بنائے کیوں کہ ملک اور دیش کی ترقی کیلئے قانون کی پاسداری ۔ قانون کا خوف اور قانون پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ جب عوام کے دلوں سے قانون کا خوف ختم ہوجاتاہے تو ملک میں انارکی پھیل جاتی ہے اور پھر اس کی آگ ان لوگوں تک پہونچ جاتی ہے جو اس بڑھاواد یتے ہیں ۔ اس لئے ملک کی بھلائی اسی میں ہے کہ ہندومسلم کے درمیان نفرت کا سلسلہ بند کیا جائے ۔ اس کو پنپنے سے روکا جائے اور بھائی چارہ کو فروغ دیا جائے ۔
برسبیل تذکرہ یہ لکھنا ضروری ہے کہ جب ہمار ے اسلاف نے بھارت کا دستور تشکیل دیا تو انہوں نے نے مقننہ ،انتظامیہ اور عدلیہ سبھی کو ایک دوسرے سے الگ رکھا ۔ ہر ایک کی ذمہ داریاں الگ الگ متعین کی گئی ۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ ملک میں شفافیت رہے گی ۔ کرپشن نہیں ہوگا ۔ ایک محکمہ کا دوسرے محکمہ پر انحصا ر نہیں رہے گا ۔ بلکہ سبھی ادارے مکمل آزادی کے ساتھ دستور کے مطابق کام کریں گے ۔ خاص طور پر عدلیہ کو سب سے الگ رکھاگیا تاکہ اس کی بالادستی قائم رہے ۔مکمل آزادی او راختیار کے ساتھ عدلیہ اپنا کام کرے ۔ وہ حکومتی دباﺅکے سامنے جھکنے اور کسی بھی بات سے متاثر ہونے کے بجائے حقاق کی بنیاد پر فیصلہ کرے ۔ عوام چاہتے ہیں کہ اسلاف کا یہ آئین اور دستور اسی طریقہ کے مطابق برقرار رہے ۔ عدلیہ مکمل طور پر آز اد رہ کر اپنا کام کرے ۔ انصاف کا ترازو کبھی بھی ذرہ برار نہ جھکے ۔
(مضمو ن نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری)