نئی دہلی: (پریس ریلیز): آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے قومی صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بدر الدین اجمل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز جو دہلی کے نظام الدین میں واقع ہے، اس میں ٹھہرنے والے کچھ افراد میں کورونا پائے جانے کی خبر آتے ہی ملک کی گودی میڈیا نےاس بیماری کو بھی ہندو اور مسلمان کا رنگ دیکر بے شرمی کی انتہا کر دی ہے۔ یہ بات سرکار اور انتظامیہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ تبلیغی جماعت ایک سیدھی سادھی جماعت ہے جو لوگوں کو بُرائیوں سے رُکنے اور اچھے کاموں کی دعوت دیتی ہے،اورتبلیغی جماعت ملک کے قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا کام کرتی ہے مگر گودی میڈیا ایسا پروپیگنڈہ کر رہی ہے جیسے یہ کوئی نئی جماعت ہو جو ملک مخالف کام میں ملوث پائی گئی ہو، اور جیسے اس نے پلاننگ کے ساتھ کرونا وائرس پھیلانے کا جرم کیا ہو۔مولانا نے کہا کہ جیسا کہ تبلیغی مرکز نےدستاویز پیش کئے ہیں اس کے مطابق مرکز کے ذمہ د اروں نے لوک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے یہاں پھنس جانے والے افراد کی اطلاع پولس انتظامیہ کو دی تھی ، اسی طرح وہاں ٹھہرنے والے لوگوں کی جانکاری انتظامیہ کومستقل دیتے رہے ہیں، اور ان لوگوں کو وہاں سے نکالنے کے لئے پولس سے مدد بھی مانگی تھی مگر ان کی درخواست پرتوجہ نہیں دی گئی ، اس لئے اصل مقدمہ تو پولس انتظامیہ کےان ذمہ داران پر ہونی چاہئے جنہوں نے اس لاپرواہی کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ تبلیغی مرکز میں ٹھہر نے والوں میں کرونا وائرس کی تصدیق سے پہلے ہی دہلی کے وزیر اعلی کجریوال نے وہاں کے ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کرنے میں جس جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے کاش کہ یہ یہی پھرتی نفرت انگیز تقریر کرنے والے بی جے پی کے لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے میں کی ہوتی تو شاید دہلی فساد نہ ہوتا۔ مزید بر آں تبلیغی مرکز کے معاملہ میں دہلی کے وزیر اعلی کا بیان اور لب و لہجہ بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ بلکہ فرقہ وارانہ ہے جس کی میں شدید مذمت کرتا ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ تبلیغی جماعت کے مرکز میں جو حالات پیدا ہوئے اس کی اصل ذمہ دار سرکار اور پولس انتظامیہ ہے کیونکہ حکومت نے کرونا وائرس جیسی خطرناک بیماری کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں جس کی وجہ سے حالات خراب ہوتے گئے حالانکہ چین اور اٹلی وغیرہ میں جو خطرناک صورت حال پیدا ہو چکی تھی اس سے سبق لینے کی ضرورت تھی اور اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری ابتدا سےکی جا نی تھی مگر ایسا نہیں ہوا اور جب حالات ابتر ہوئے تو بغیر کسی تیاری کے پورے ملک میں لوک ڈاؤن کر دیا گیا جس کی وجہ سے جو لوگ جہاں تھے وہیں پھنس گئے، یہی ح صورتِ حال تبلیغی مرکز میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ بھی پیش آیا۔ مولانا نے مزید کہا کہ ملک میں کرونا کاپہلا کیس جنوری کے آخری ہفتہ میں سامنے آیا تھا، سرکار کو اسی وقت چاک و چوبند ہوکر اس کے روک تھام کی تیاری کرنی تھی مگر سرکار تو فروری کے آخری ہفتہ تک اس کو نظر انداز کرتی رہی اور امریکی راشٹر پتی ٹرمپ کے استقبال میں ملک کا پیسہ پانی کی طرح بہا تی رہی، ۱۳ مارچ تک ملک کے ہیلتھ منسٹر کہتے رہے کہ ملک میں ہیلتھ ایمرجنسی نہیں ہے، ۱۶ مارچ تک پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر کہتے رہے کہ حالات انڈر کنٹرول ہیں اس لئے پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن ۳ ،اپریل تک چلتا رہے گا اور زبردستی سیشن ۲۴ مارچ تک چلایا گیا، ۲۳ مارچ کو مدھیہ پر دیش میں سرکار بنانے کی پُر وقارتقریب منعقد کی گئی، کرناٹک میں لوک ڈاؤن کے با وجود وزیر اعلی تقریباً دو ہزار کے مجمع والی ایک شادی کی تقریب میں شریک ہوئے، لوک ڈاؤن کے با وجود ۲۵ مارچ کو یوپی کے وزیر اعلی نےایودھیا میں مذہبی تقریب منعقد کی جس میں وہ خود موجود رہے اور ایک بڑی بھیڑ نے حصہ لیا، اس لئے اصل لاپرواہی برتنے والی تو سرکار اور انتظامیہ ہے جن پر مقدمہ درج ہونا چاہئے۔ ان سب واقعات اور سرکار کے کارناموں کی وجہ سے ہی ملک کی عوام کو حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے میں دشواری ہوئی ہے اور نتیجہ کے طور پر مندر، مسجد، گردوارہ، اور گرجا گھروں میں معمولات چلتے رہے مگر جیسے ہی لوک ڈاؤن کا اعلان ہوا مسلمانوں نے اپیل جاری کی کہ لوگ مسجدوں میں نماز کے لئے نہ جائیں بلکہ گھروں میں ہی نماز ادا کریں اور مسلمانوں نے اس پر عمل کیا۔ چونکہ تبلیغی جماعت کے مرکز میں ہزراوں لوگ ہر روز آتے رہتے ہیں اس لئے اچانک لوک ڈاؤن کے اعلان کی وجہ سے وہاں لوگ پھنس گئے ٹھیک اسی طرح جیسے وشنو دیوی مندر میں ہزاروں لوگ پھنس گئے ہیں۔
مولانا اجمل نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اچانک اور بغیر تیاری کے لوک ڈاؤن کے فیصلہ کی وجہ سے ملک کے لاکھوں غریب ، مزدور اور کسان بھوک کی وجہ سے مرنے کا خطرہ محسوس کر رہے ہیں اور ان میں سے تقریباً ۲۰ لوگوں کی موت ہو بھی چکی ہے، لوگ دہشت کی وجہ سے طویل سفر پیدل ہی شروع کر نے پر مجبور ہوگئے جس کی وجہ سے کئ کی جان بھی گئی،کئی لوگوں نے خود کشی بھی کرلی، ہاسپیٹلوں میں دوا اور سامان موجود نہ ہونے کی شکایتیں مل رہی ہیں۔ ایسے وقت میں جب ملک کرونا وائرس جیسی جان لیوا بیماری سے جھوجھ رہا ہے ضرورت اس بات کی تھی کہ اس بیماری کا ملکر مقابلہ کرنے اور پورے ملک میں ہوئے لوک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والی دشواری کو ختم کرنے پر بحث کی جاتی، لوگوں کو خوف و دہشت سے نکالنے کا پیغام دیا جاتا مگر افسوس کہ سرکار اپنی تمام تر کوتاہیوں کا ٹھیکرا تبلیغی جماعت کے سر پھوڑنا چاہتی ہے اورگودی میڈیا اپنے شرمناک اور گھناؤنے پروپیگنڈہ کے ذریعہ تبلیغی مرکز کو بدنام کرنے کی کو شش میں مصروف ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت گودی میڈیا فرقہ وارانہ نفرت کا جووائرس پھیلا رہی ہے وہ اس ملک کے لئے کرونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔