لاک ڈاؤن میں گھر لوٹتے وقت پولیس کے ظالمانہ رویے سے دل برداشتہ ہو کر دلت نوجوان نے کی خودکشی، موت سے قبل بھیجا تھا دردناک آڈیو

دلت نوجوان کا قصور اتنا تھا کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں رہنے پر وہ آئسولیشن سے باہر نکل کر آٹا لانے چلا گیا۔ اس عمل سے ناراض یو پی پولس نے اسے بے رحمی سے پیٹا۔ تنگ آکر نوجوان نے خودکشی کر لی۔

وشو دیپک کی رپورٹ

اتر پردیش میں کورونا وائرس انفیکشن کے مریضوں کی تعداد 300 کے پار ہو چکی ہے اور لاک ڈاؤن کے درمیان اتر پردیش میں پولس کئی مقامات پر زیادتیوں کی اپنی حد پار کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس ظلم کا شکار ایک دلت نوجوان بھی ہو گیا۔ مبینہ طور پر دلت نوجوان نے کوارنٹائن قوانین کی خلاف ورزی کی جس کے بعد اس پر پولس نے حد سے آگے بڑھ کر کارروائی کی جس سے تنگ آ کر نوجوان نے خودکشی کر لی۔

“دوستوں، اگر کسی کو میری بات پر یقین نہ ہو تو میری پینٹ اتار کر دیکھ لینا، وہاں خون ہی خون اور پولس کی بربریت کے نشان نظر آئیں گے۔ اس بے عزتی کے بعد میرے پاس زندہ رہنے کی کوئی وجہ نہیں بچی ہے اور میں اپنی جان دے رہا ہوں…۔” یہ الفاظ یو پی کے لکھیم پور ضلع کے پھریا پپریا گاؤں کے دلت نوجوان روشن لال کے ہیں جو اس نے جان دینے سے پہلے اپنے فون میں ریکارڈ کیا تھا۔ روشن لال گزشتہ 29 مارچ کو اپنے گاؤں لوٹا تھا۔ وہ دہلی کے نزدیک گروگرام میں دہاڑی مزدور تھا۔ گاؤں لوٹنے کے بعد مقامی انتظامیہ نے اسے گاؤں کے ہی ایک اسکول میں کوارنٹائن میں رکھا تھا۔

روشن لال اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ اس نے اپنے فون میں ریکارڈ آڈیو کلپ کو اپنی فیملی اور کچھ دوستوں کو وہاٹس ایپ پر بھیجا۔ اس کلپ میں اپنی کہانی سناتے ہوئے وہ بے حد تکلیف میں سنائی دے رہا ہے۔ وہ چیخ رہا ہے اور کمزور آواز میں اپنی کہانی سنا رہا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے “میرے ہاتھ توڑ دیئے گئے ہیں، اب میں زندہ رہ کر کیا کروں گا۔” وہ آگے کہتا ہے کہ “میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ سب غلط ہے۔ میری رپورٹ نگیٹو آئی ہے اور میرے پاس اس کا ریزلٹ بھی ہے۔ لیکن میں اب اپنی جان ختم کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ انوپ کمار سنگھ کے خلاف کارروائی ہو۔ انوپ کمار نے میرے ساتھ بہت ناانصافی کی ہے۔ میں بہت مجبور ہوں۔”

روشن لال کی فیملی کا دعویٰ ہے کہ اس نے مرنے سے پہلے تین آڈیو کلپ بھیجی ہیں۔ ایک اور آڈیو کلپ میں وہ کہتا سنا جا رہا ہے کہ “اس سب کے باوجود کوئی میری مدد کے لیے نہیں آیا، اس لیے میں یہ قدم اٹھا رہا ہوں۔” اپنی آخری خواہش کے طور پر اس نے کہا ہے کہ “پی این بی اکاؤنٹ میں میرے 80 ہزار روپے ہیں، وہ میری ماں کو دے دیئے جائیں۔ الٰہ آباد بینک میں بھی میرے 20 ہزار روپے ہیں، اسے بھی میری ماں کو دے دیا جائے۔”

روشن لال نے گروگرام کے اس ٹھیکیدار کا نام بھی لیا ہے جس کے پاس وہ کام کرتا تھا۔ اس نے کہا ہے کہ ٹھیکیدار پر اس کے 25000 روپے بقایہ ہیں، وہ بھی میری ماں کو دے دیئے جائیں۔ خود پر ہوئے ظلم کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ “انوپ کمار سنگھ نے مجھے بے رحمی سے پیٹا، میری پیٹھ پر ہر جگہ آپ کو خون جمع ہوا نظر آئے گا۔ اسی وجہ سے اب میں خودکشی کر رہا ہوں۔”

ایک دیگر آڈیو کلپ میں روشن لال اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ “ہیلو، نمسکار، میرا نام روشن لال ہے۔ میں بہت افسردہ ہوں۔ میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میں اسکول سے باہر آ گیا تھا۔ آٹا لانے کے لیے، کیونکہ میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ ایک پولس والا انوپ سنگھ ہے، اس نے مجھے اتنی بے رحمی سے مارا کہ میرے دائیں ہاتھ نے کام کرنا بند کر دیا۔ شاید وہ ٹوٹ گیا ہے۔ میں کتنا مجبور ہوں یہ بتا نہیں سکتا۔”

روشن لال کی فیملی نے پولس کانسٹیبل انوپ کمار کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی، لیکن پولس نے رپورٹ نہیں درج کی۔ روشن لال کی فیملی نے انوپ کمار کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

غور طلب ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کے بعد پھیلی دہشت اور دقتوں کی وجہ سے خودکشی کا یہ چوتھا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس سے پہلے کانپور کے ایک نوجوان نے منگل کو پھانسی لگا کر خودکشی کر لی تھی، اسے ڈر تھا کہ وہ کورونا وائرس کی زد میں ہے۔ دو دیگر معاملوں میں ہاپوڑ اور بریلی کے ایک ایک نوجوان نے اسی وائرس کے خوف سے خودکشی کر لی۔

پولس والوں پر درج ہو قتل کا مقدمہ: اجے للو

روشن لال خودکشی معاملہ میں کانگریس نے اپنا تلخ رد عمل دیا ہے۔ یو پی کانگریس کمیٹی کے صدر اجے سنگھ للو نے فون پر کہا کہ اس واقعہ سے اتر پردیش پولس کا اصلی اور ظالمانہ چہرہ سامنے آ گیا ہے۔ انھوں نے اس معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ‘قومی آواز’ سے بات چیت میں انھوں نے کہا کہ “یو پی میں قانون اور آئین کا نہیں بلکہ ڈنڈے کا راج چل رہا ہے۔ کورونا پر کنٹرول کے نام پر پولس غریبوں، مزدوروں پر ڈنڈا برسا رہی ہے۔ جن پولس والوں نے بربریت کا مظاہرہ کیا ہے، ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔”

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں