مدثر احمد قاسمی
دنیا کے ہر گوشے سے آزادی کے نعرے سنے جاتے ہیں؛ اس کی حد یہ ہے کہ اب بچے بھی اپنے بوڑھے ماں باپ سے ’’آزادی‘‘ چاہنے لگے ہیں اور اِس سے بھی آگے بڑھ کر نوجوان والدین اپنی اولاد کو اپنی آزادی کے لئے رکاوٹ سمجھنے لگے ہیں۔
اس کا خطرناک نتیجہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے سماجی ڈھانچے کا تانا بانا بکھرتا نظر آرہا ہے۔ ’’آزادی‘‘ کا یہ عفریت ا نسانی دماغ پر اس قدر حاوی ہے کہ اب مذہب بھی انہیں اپنی پائوں کی بیڑی معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ کچھ لوگ مذہب سے مکمل آزادی چاہتے ہیں تو وہیں کچھ دوسرے لوگ مذہب کے تمام شعبوں میں رخصت اور رعایت کے متمنی رہتے ہیں۔ مذہب کے باب میں ’قدامت پسندی‘، ’اولڈ فیشن‘ اور’`پسماندہ‘ جیسی اصطلاحات اِنہی بیمار ذہنوں کی پیداوار ہیں۔ حالانکہ دین کسی انسانی ذہن کی پیداوار نہیں ہے اور یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے انسانی خواہش اور ذوق کے مطابق ڈھالا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دین ِ اسلام کو کامل و مکمل فرما دیا ہے لہٰذا دین میں بے جا اور بلا ضرورت رعایت و رخصت کو طلب کرنا دین کو نامکمل قرار دینے کی حماقت کے مترادف ہے۔
گہرائی سے غور و فکر کریں گے تو یہ بات ہمارے سامنے عیاں ہو جائے گی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس دنیا کو اِس انداز سے تخلیق فرمایا ہے کہ یہاں مکمل آزادی نا ممکن ہے۔یہ بات عقلی طور پر بآسانی اِس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ دنیا کی کوئی بھی حکومت یا تنظیم ایسی نہیں ہے جو مکمل آزادی کی وکالت کرتی ہو؛ اِس کے بر خلاف ہمیشہ سے زندگی کے ہر شعبے میں کسی نہ کسی اعتبار سے کچھ پابندیاں رہی ہیں تاکہ ایک متوازن سماج کی تشکیل عمل میں آسکے۔ یاد رکھئے! انسانی زند گی میں مکمل آزادی کی طلب کی تکمیل ناممکنات میں سے ہے کیونکہ دنیا میں ہر خواہش کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی مکمل آزادی کے تصور کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے اُن کے یہاں ایک زبردست سماجی بحران ہوا جسے خاص طور پر جنسی بے راہ روی کے عام ہونے کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے؛ معمولی رقم کیلئے والدین کے قتل کی خبریں بھی ہیں اور اپنی آزادی کیلئے کمزوروں کا استحصال بھی عام ہے۔ یہ یقیناً کسی بھی بندش سے دور آزاد کلچر کا نتیجہ ہے اور شرم کی بات یہ ہے کہ مذکورہ تمام جرائم کو آزادی کے نام پر جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سماجی مصلحین اپنے مطالعے میں اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آزادی کے نام پر بے راہ روی دراصل زندگی کو محض لطف اندوزی کی چیز اور کھیل سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ اس کی ایک مثا ل یہ ہے کہ لوگ گھر میں اپنے بیوی بچے اور والدین کے ساتھ زندگی کی ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے گھر سے باہر دوستوں کے ساتھ رنگ رلیاں منانے اور وقت ضائع کرنے نیز پیسہ اُڑانے میں زندگی کے لطف کو مضمر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اگر ہم اپنی عقل کا سوواں حصہ بھی استعمال کریں گے تو اِس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہماری یہ گمراہ سوچ پانی کے بلبلے کی مانند ہے کہ جس کا وجود ہی اختتام کی دلیل ہے۔ یہ بات ہمارے ذہن میں رہے کہ مذہب اسلام انسان کی پُر لطف زندگی کے خلاف نہیں ہے بس شرط یہ ہے کہ ہمارا ہر عمل اسلامی احکامات کے دائرہ میں ہو۔ چنانچہ اچھا کھانا، اچھا پہننا، عمدہ رہن سہن، پاکیزہ ماحول، صاف ستھرا معاملہ وغیرہ زندگی کو پُر لطف بنانے کے اسباب میں سے ہیں اور یہ سب اسلامی اُصول کے مطابق صحیح ہیں شرط صرف یہ ہے کہ اِن سب چیزوں کا حصول جائز طریقوں پر ہو۔ مسلمانوں کے لئے بطورِ خاص یہ ضروری ہے کہ وہ دنیا سے فائدہ اور لطف اُٹھانے کے لئے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے درمیان حد فاصل ضرور قائم کریں۔ مسلمانوں کے پاس شریعت ِ اسلامیہ کی صورت میں ایک خوبصورت ضابطہ ٔ حیات موجود ہے لہٰذا اُن کی نظریںغیروں کے ذریعے لطف اندوزی کے ناجائز اسباب کی طرف نہیں اُٹھنی چاہئے اور اُنہیں یہ سمجھنا چاہئے کے اُن کے لئے خوشی اور لطف اندوزی کے لامحدود و لازوال اسباب جنت میں محفوظ ہیںجن کے حصول کے لئے دنیاایک عمل گاہ ہے۔
مسلم شریف کی ایک حدیث کے مطابق `دنیا مومنوں کے لئے جیل کی مانند ہے اور غیر مومنوں کے لئے جنت کی طرح ہے۔`اس کا مطلب صاف ہے کہ جس طرح ایک قیدی جیل کے اندر من مانی نہیں کرسکتا اسی طرح مسلمان دنیا میں من مانی نہیں کرسکتے کیونکہ مالکوں کے مالک اللہ رب ا لعزت اُن سے اِس دنیا میں تقویٰ والی زندگی چاہتے ہیں۔ یاد رکھئے! ایک مسلمان کے لئے آزادی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اسلامی احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے آزاد ہو اور اُن احکامات پر عمل در آمد کرنے پر کسی قسم کی بندش اور رکاوٹ اس کے لئے نہ ہو۔