کرونا وائرس کی وجہ سے سعودی عرب کو معاشی نقصان، بجٹ اخراجات میں کمی لانے کا فیصلہ

 ریاض: (ملت ٹائمز) دنیا کا مالدار ترین اور سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والا ملک سعودی عرب ان دنوں شدید پریشان ہے ۔ معاشی خسارے سے دوچارہے اور وہ تاریخی طور پر تیل کی کم قیمت سے مقابلہ کررہا ہے۔
سعودی عرب کو ان حالات کا سامنا کورونا وائرس کی وجہ سے کرناپڑا ہے ۔ چناں چہ سعودی عرب نے معاشی نقصان کے پیش نظر اپنے بجٹ اخراجات میں کمی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔سعودی عرب کے وزیر خزانہ محمد الجدان نے سنیچر کے روز کہاکہ کورونا وائرس سے معیشت کو دھچکا لگا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کڑے اور تکلیف دہ فیصلے کیے جائیں گے۔
العربیہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں الجدان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب بجٹ کے خرچوں میں نمایاں کٹوتی کرے گا۔ کورونا وائرس کے اثرات رواں سال کے دوران دوسری سہ ماہی پر واضح طور پر نظر آئے ہیں۔سعودی عرب کے مالی معاملات کو سخت کیا جائے گا تاکہ تمام چیزیں قابو میں رہیں۔ اس کے علاوہ میگا پراجیکٹس کے اخراجات میں بھی کٹوتی کی جائے گی۔
رواں سال مارچ میں سعودی عرب کے مرکزی بینکوں میں بیرونی زر مبادلہ کے زخائر میں گذشتہ 20 برسوآں میں سب سے زیادہ کمی آئی ہے۔تیل کی قیمت گرنے کے بعد پہلی سہ ماہی میں نو ارب ڈالر کا بجٹ میں خسارہ ہوا ہے۔ الجدان نے گذشتہ مہینوں میں کہا تھا کہ سعودی عرب رواں سال 26 ارب ڈالر کا قرض لے سکتا ہے تاکہ زرمبادلہ کے زخائر کو متوازن رکھا جا سکے۔سعودی عرب کی مالیاتی اتھارٹی نے منگل کے روز کہا تھا کہ مارچ میں سعودی عرب کی غیر ملکی املاک میں 464 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ گذشتہ 19 برسوں میں اپنے سب سے نچلے درجے پر ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ایسا کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ہوا ہے۔
سعودی کے وزیر خزانہ محمد الجدان نے کہا کہ اگلے اقدام اور فیصلوں پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ نقصان کو پورا کیا جاسکے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ تیل کے علاوہ محصولات میں گراوٹ کے اثرات آنے والی سہ ماہی میں نظر آئیں گے۔الجدان نے کہا کہ ‘رواں سال کے آغاز میں تیل کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل تھی اور آج 20 ڈالر فی بیرلہے۔ یہ 50 فیصد سے بھی زیادہ کی گراوٹ ہے۔’
سعودی عرب نے بھی وبا پر قابو پانے کے لیے زیادہ تر شہروں میں لاک ڈاو ¿ن نافذ کر رکھا ہے جبکہ بعض جگہ کرفیو بھی نافذ کر رکھا ہے۔اس وجہ سے بھی سعودی عرب کی تیل کے علاوہ آمدنی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ لوگ گھروں میں ہیں اور سارا کاروبار بند ہے۔
سعودی وزیر خزانہ کے مطابق ‘کورونا وائرس سے متعلق احتیاطی اقدام کیے جانے کے سبب معاشی سرگرمیاں ٹھپ ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے تیل کے علاوہ دیگر شعبوں سے ہونے والی کمائی بھی متاثر ہوئی ہے۔
ایسے حالات کا خدا کی مرضی اور سمجھداری اور ہنرمندی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہم اس وبا سے نمٹنے کے لیے کئی سارے راستوں کی تلاش میں ہیں۔ ایسے حالات دوسری جنگ عظیم کے بعد 70 سالوں میں دنیا نے نہیں دیکھے۔ عالمی سطح پر اس طرح کی وبا پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔‘
انھوں نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ حکومت اپنے مالی زخائر سے محدود مقدار میں دولت نکالے گی۔ وہ زیادہ سے زیادہ 32 ارب ڈالر ہی اپنے زخائر سے نکالے گی۔ اس کے بدلے حکومت قرض لینے کی اپنی پوری صلاحیت کا استعمال کرے گی اور 60 ارب ڈالر کا قرض لے گی۔
انھوں نے مزید کہا: ‘ہم قرض لینا جاری رکھیں گے۔ سکیورٹی کی وجہ سے ہم نے سرکاری قرضوں کی بہت طلب دیکھی ہے۔ مارکیٹ اور دستیاب نقدی کی صورتحال کے سبب ہمارا 220 ارب ڈالر قرض لینے کا منصوبہ ہے۔’
الجدان کا کہنا ہے کہ سعودی کی حکومت ہو یا پھر باقی ساری دنیا ۔کوئی بھی کورونا کی وبا کے خاتمے سے پہلے پہلے والی معاشی حالت میں واپس نہیں آنے والا ہے بطور خاص اس صورت میں کہ جس طرح اس وبا کے اثرات معاشی سرگرمیوں اور اشیا کی سپلائی کے نظام پر پڑے ہیں۔
سعودی عرب کے سامنے موجودہ اقتصادی چیلنجز کے بارے میں سعودی وزیر خزانہ نے کہا کہ سعودی عرب کی معاشی صورتحال اب بھی بڑے پیمانے پر لوگوں کی قوت خرید پر منحصر ہے اور اس لیے وہ لوگوں کی خرچ کرنے کی اہلیت کو برقرار رکھیں گے تاکہ مستقبل میں معیشت کی حالت درست رہے۔عوامی مالیاتی سرمایہ کاری کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت چار پانچ سالوں سے اس سمت میں کام کر رہی ہے اور نقصانات کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ان کے مطابق ’ہم خرچ کم کریں گے۔ اس حوالے سے اٹھائے جانے والے حکومتی اقدامات تکلیف دہ ہو سکتے ہیں لیکن وہ سب کے بھلے کے لیے ہوں گے۔ ملک اور شہریوں کی بھلائی کے لیے ہوں گے۔’عوامی مالیاتی سرمایہ کاری کو برقرار رکھنے کی غرض سے ان کا کہنا تھا کہ صحت کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ حکومت بعض منصوبوں کے دیر سے مکمل کرنے پر غور کر رہی ہے۔’احتیاط کے ساتھ اٹھائے جانے والے اقدام کے تحت ہم منصوبوں پر آنے والے اخراجات میں کمی لائیں گے۔‘
ویزن 2030 کے تحت جاری کچھ اہم منصوبوں یا پھر کچھ پروگراموں پر ہونے والے اخراجات پر ہم احتیاط برتتے ہوئے تاخیر کا فیصلہ کریں گے۔ اس سے ہمارے اخراجات میں کمی آئے گی۔اس کے علاوہ حکومت دوسری مدات کے اخراجات میں بھی کٹوتی پر غور کر رہی ہے لیکن لوگوں کی بنیادی سہولیات کو متاثر کرنے والے کوئی بھی اقدام نہیں کیے جائیں گے۔