( ابا کی یاد میں )
شبنم نگار فاروقی
وہ میرے بچپن کی عید
وہ میرے بچپن کی عید
معصومیت سے سجی
وہ میرے بچپن کی عید
جب لالٹین کی روشنی میں
گہری لگتی مہدی کے رنگ
لال گلابی ہرے نیلے
کاغذ سے سجاتے گہر کے آنگن
وہ میرے بچپن کی عید
وہ میرے بچپن کی عید
معصومیت سے سجی
وہ میرے بچپن کی عید
ابا لاتے سب کے کپڑے
امی سلتی رات و دن
جب گھر کے ہر کونے سے آتی
میرے بھائی بہنوں کی چیخ
کوئی کہتا میرے جو تے
کوئی کہتا میرے کپڑے
وہ میرے بچپن کی عید
وہ میرے بچپن کی عید
معصومیت سے سجی
وہ میرے بچپن کی عید
تب ہم بوا کے گہر جا تے
کپڑے مٹھائی ساتھ لے جاتے
دو روز پہلے ہی عید سے
بٹنے لگتے غلے کپڑے
امی کہتی ان کو دے آؤ
امی کہتی پوچھ کےآؤ
حامد کے کپڑے کیا ہے بنے
سلمہ نے سلائے کیا نئے جوڑے
تب ہم سب کے گھر گھر جاتے
غلے کپڑے دے کر آتے
وہ میرے بچپن کی عید
وہ میرے بچپن کی عید
معصومیت سے سجی
وہ میرے بچپن کی عید
پوری رات آنکھون میں کٹتی
جوتے کپڑے مہدی گہنے
ہر کوئی تھا راجہ ہر کوئی تھی رانی
سب کو لگتے اچھے اپنے کپڑے
نہ کوئی شکوہ نہ کوئ شکایت
ہر کوئی مگن تھا ایک ہی دھن میں
میں ہوں راجہ میں ہوں رانی
وہ میرے بچپن کی عید
وہ میرے بچپن کی عید
معصومیت سے سجی
وہ میرے بچپن کی عید
پھر ابا کی ایک آواز آتی
جلدی جلدی جلدی جلدی
تب سب پورا زور لگا تے
کوئی جاتا اوپر کوئی نیچے
تب لگتی حمام کی باری
ھاتھوں میں کپڑے
دروازے پہ دستک
جلدی نکلو جلدی نکلو
وہ میرے بچپن کی عید
وہ میرے بچپن کی عید
معصومیت سے سجی
وہ میرےبچپن کی عید
ابا کہتے خشبو ہے کہاں
امی لاتی عطر کی بوتل
بوتل سے نکلتا خشبو کا جن
پھر کھاتے سب دودھ چھوہا رے
ابا کی انگلی پکڑے
ملکر جاتے عید گاہ سارے
حامد زاہد سلمہ ناہد
سب کے کپڑے رنگ برنگے
سر پر ٹوپی اونچی لمبی
پیروں میں جوتے ہے کا لے
وہ میرے بچپن کی عید
وہ میرے بچپن کی عید
معصومیت سے سجی
وہ میرے بچپن کی عید
جب عید گاہ کا منظر دکھتا
دل میں خشیوں کا طوفاں اتھتا
ہر طرف اپنی خشبو بکھیرے
جھومتا عید سب کے سر پر
پھر اٹھتی حق کی صدا
سب جھک جاتے اللہ کے سامنے
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر
کی صدائیں گونج اٹھتی
وہ میرے بچپن کی عید
وہ میرے بچپن کی عید
معصومیت سے سجی
وہ میرے بچپن کی عید
ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں
باجے والے رنگ برنگے غبارے والے
تماشے والے مٹھائ والے
ٹھمک ٹھمک کر ناچتا بندر
بیم کے دھن پہ بل کھا تی نا گن
رسی پہ دوڑتی بہوک کی ماری
وہ ننہی گڑیا بہادر سپاہی
وہ میرے بچپن کی عید
وہ میرے بچپن کی عید
معصومیت سے سجی
وہ میرے بجپن کی عید
ابا سب کوعیدی دیتے
چند سکوں میں ہم راجہ بنتے
ہر کوئی راجہ ہر کوئ رانی
پھر ہم اپنی دنیا خریدتے
مگن مگن گھر کو جا تے
گھر گھر جا کر عیدی لیتے
شیر خور ما سویاں کھاتے
انکھوں میں خوشیاں سموے
تھک کر گہری نید سو جا تے
وہ میرے بچپن کی عید
وہ میرے بچپن کی عید
معصومیت سے سجی
وہ میرے بچپن کی عید
شبنم نگار فاروقی