تکریم انسانیت اور مسلمانوں کی ذمہ داری

نقطۂ نظر : ڈاکٹر محمد منظور عالم

تقوی کے بعد انسان میں بہت ساری خوبیاں پیدا ہوجاتی ہے ۔ خشو ع وخضوع انسان کو برائیوں کے دلدل سے نکال کر اچھائیوں اور خوبیوں کا پیکر بنادیتاہے ۔ انسان اچھی صفات کا خوگر اور خوبیوں کا نمونہ بن جاتاہے ۔ زندگی میں تبدیلی کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنی ذات سے اپنے سماج ، اپنے ملک اور پور ی دنیا کو فائدہ پہونچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کی فکر اور کوشش ہوتی ہے کہ دنیا میں ایک نیا انقلاب برپا ہوجائے ۔ برائیوں کا خاتمہ ہوجائے ۔ نیکیوں کا چلن عام ہو ۔ دنیا میں ہر کوئی ایک دوسرے کی بھلائی کی فکر کرے ۔ برائی سے گریز کرے ۔ انسانی ذہن ودماغ میں یہ بنیادی تبدیلی تقوی سے پیدا ہوتی ہے اور تقوی کا مہینہ رمضان ہے ۔ماہ رمضان کا مقصد ہی انسان کو متقی بنانا اور اس میں تقوی کے صفات پیدا کرنا ہے ۔اللہ تعالی نے قرآن کریم میں واضح طور پر کہاہے ” اے مسلمانوں تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیساکہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیاگیاتاکہ تم متقی بن جاؤ “ ۔ تو یہ رمضان کا بنیادی مقصد اور اہم فائدہ ہے ۔یقینی طور پر ماہ رمضان میں تقوی آجاتا ہے اور اس نقطۂ نظر سے سال رواں کا ماہ رمضان بہت اہمیت کا حامل رہا کیوں کہ ہر گھر مسجد بنا ہوا تھا ۔ مسجدوں میں نماز کے دروازے بند ہوگئے تو مسلمانوں نے ہر گھر کو مسجد بنا لیا تھا ۔ ہر گھر میں تقریباً جماعت کے ساتھ نماز ہوئی ۔ تروایح ادا ہوئی ۔ قرآن کریم کی تلاوت ہوئی ۔ ذکرِ الہیٰ کا خصوصیت کا ساتھ اہتمام ہوا ۔ غریبوں اور پریشانوں کی بھی مسلمانوں نے دل کھول کر مدد کی ۔ لاک ڈاؤن کے دوران پریشان ، بے کس ، مزدور اور کمزورں کی امداد میں مسلمانوں نے قابل ذکر کردار ادا کیا ۔ یہ سارے وہ عظیم اوصاف ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے کیلئے یہ رمضان بیحد اہم مفید اور قابل ذکر رہا ہے ۔ تقوی کی صفت مسلمانوں میں پیدا ہوئی ۔
تقوی جیسی خوبیوں کے بعد مسلمان دنیا کے ہر نظام میں شفافیت ۔ بہتری اور اچھائی لانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کیلئے جدوجہد شروع کر دیتا ہے اور فکر مند ہوجاتاہے ۔ تقوی پیدا ہوجانے کے بعد اس کا ضمیر اس سے اچھے اور انسانیت کی بھلائی کا کام لیتاہے ۔ بلاشبہ انسانیت کی بھلائی ایک ضروری ،لازمی اور اہم امر ہے ۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو انسانیت کی بھلائی ۔ انسانیت کی ترقی اور انسانیت کے عظمت و‌ احترام کا حکم دیا ہے ۔ احترم انسانیت انسانی ترقی اور انسانی بلندی کیلئے ضروری ہے ۔اس کے بغیر کوئی بھی قوم مہذب نہیں ہوسکتی ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ولقد کرمنا بنی آدم ۔۔۔ ہم نے بنی آدم کو معظم اور قابل احترام بنایا ہے ۔ مطلب انسان سب سے معظم ۔ قابل احترام اور لائق تکریم ہے ۔ اس کا احترام اور اکرام ہر حال میں ضروری ہے ۔کیوں کہ سبھی انسان برابر ہیں ۔ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت اور امتیاز حاصل نہیں ہے ۔ امریکہ میں پیدا ہونے والے ایک انسان کی وہی حیثیت ہے جو افریقہ کے جنگل میں رہنے والے سیاہ فام کی ہے ۔ عرب سے تعلق رکھنے وال والا ایک انسان بھارت سے تعلق رکھنے والے انسان کے برابر ہے ۔ نسل ذات ، مذہب ، علاقہ اور خطہ کی بنیاد پر کسی کو کسی پر کوئی فوقیت اور برتری حاصل نہیں ہے ۔ سبھی برابر اور ایک ہیں ۔ اسلام کا بنیادی پیغام دنیا میں اسی مساوات کے پیغام کو عام کرنا ہے کہ سبھی انسان برابر ہیں ۔ ذات مذہب اور نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہوسکتی ہے ۔ بطور انسان دنیا میں پیدا ہونے والے سبھی اللہ تعالی کے بندے ہیں اور سبھی یکساں حیثیت کے مالک ہیں ۔ اسلام نے ذات ، نسل اور علاقہ کی بنیاد پر ذرہ برابر کسی کو فوقیت نہیں دی ہے۔ ایسی سوچ اور ایسی حرکتوں کی شدید تنقید کی ہے ۔ اسلام کی نظر میں سبھی آزاد ہیں ۔ اسلام انسان کے ہاتھوں انسانوں کی غلامی کے خلاف ہے ۔ مذہب اسلام کی بنیادی تعلیمات میں یہ شامل ہے کہ اللہ تعالی کے سبھی بندے روئے زمین پر آزاد ہیں ۔ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کو غلام بنائے لیکن دنیا کی تاریخ کا یہ افسوسناک ورق ہے کہ طاقتور لوگوں نے غریبوں کو غلام بنایا ۔ نسل اور ذات کی بنیاد پر فخر کرکے دوسری نسل اور ذات کے لوگوں کی توہین کی ۔ انہیں اپنا غلام بنایا ۔ خود کو آقا کے طور پر پیش کیا اور کمزور لوگوں کو غلام بناکر ان سے اپنی زندگی کا سار ا کام کرایا ۔ تمام انعامات اور اہم چیزوں کا مالک خود کو بنالیا ۔ سبھی اللہ تعالی کی سبھی نوازشات اور اہم تخلیقیات کو صرف اپنے لئے خاص کرلیا اور سماج کے کمزور ، مظلوم طبقات کو ان سے محروم کرکے اپنی خدمات پر مامور کردیا ۔ دنیا کی مختلف قومیں اس کی مرتکب ہوئی ہیں ۔ بھارت اس کا سب سے زیادہ شکار ہیں جہاں انسانوں کے درمیان صدیوں سے شدید تفریق برتی جارہی ہے اور ایک خود ساختہ قانون کی بنیاد پر بعض انسان دوسرے بعض انسان کا شدید استحصال کرتے آرہے ہیں ۔ امریکہ اور یورپ بھی اس مرض میں مبتلا ہے جہاں سیاہ فام ہونا جرم او رسفید فام ہونا باعث فخر سمجھاتا ہے ۔ اسلام اس امتیاز کے شدید خلاف ہے ۔ وہ سبھی کو ایک نگاہ اور ایک نظر سے دیکھتا ہے اور یہ کہتاہے کہ بطور انسان سبھی برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر نسل ، ذات ، علاقہ ، پیسہ ، رنگ ،نسل اور زبان کی وجہ سے کوئی برتری حاصل نہیں ہے ۔ برتری اور فخر کی وجہ صرف اور صرف علم اور تقوی ہے ۔ محض علم اور تقوی کی بنیاد پر ہی کسی کو کسی پر فوقیت دی جاسکتی ہے اور اسی علم کو سماج کے ترقی یافتہ اور مخصوص گروہ نے چھپادیا ۔ سماج کے دوسرے طبقہ کو علم کی روشنی سے محروم کرکے اسے اپنا غلام بنادیا۔ ان کی سوچ تھی کہ اگر انہوں نے بھی علم حاصل کرلیا تو ہمار ے خود ساختہ قانون کا پردہ فاش ہوجائے گا ۔ ہماری کوششیں ناکام ہوجائیں گی ۔ ان پر حکمرانی کا خواب چکنا چور ہوجائے گا اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب انہیں علم حاصل ہوگا اس لئے انہیں حصول علم سے روک دو۔ تعلیم کو محدود کردو ۔ ان سے صرف کام کراؤ ۔ انہیں بتاؤ ہی مت کہ علم ہوتا ہے کیا ہے ۔ اس کے برعکس اسلام نے شروع سے علم پر زور دیا ہے ۔ قرآن کریم کی پہلی آیت بھی علم سے متعلق ہے ۔ اسلام کا بنیادی نظریہ یہی ہے کہ علم انسان کو معزز بناتا ہے ۔ علم آنے کے بعد انسان میں غور و فکر کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے ۔ تعلیم یافتہ انسان کو غلام بنانا ممکن نہیں ہوتاہے اور اس طرح انسانوں کے درمیان مساوات کو فروغ ملتا ہے ۔
اب یہ سوچنا اور غور و فکر کرنا ضروری ہے کہ انسانیت کی تکریم کیسے ہوگی ۔ وہ کون طریقے ہیں جسے انسانیت کا احترام سمجھاجائے گا ۔ انسانیت کا وقار ہوگا ۔ معاشرے اور سماج میں انسانیت کو عزت اور قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا ۔ کیوں کہ انسانیت کی تکریم اور اس کی تعظیم ضروری ہے ۔ اسلام میں اس کو بہت زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور انسانی تکریم کیلئے ضروری ہے کہ ہر انسان کو انصاف ۔ مساوات ، آزادی اور تحفظ کا حقدار سمجھا جائے ۔ ہر ایک کو انصاف ۔ مساوات آزادی اور تحفظ فراہم کیا جائے انہیں چیزوں پر قرآن کریم میں بہت زیادہ فوکس کیا گیا ہے ۔اسلام نے آنے کے بعد اسی اصول کو پور ی دینا میں عام کیا اور یہی سبب بنا فروغ اسلام کا ۔
آج کے حالات میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا دنیا میں ہر ایک انسان کو انصاف ۔ مساوات ۔ آزادی اور تحفظ فراہم ہے۔ کیا دنیا کے سبھی ممالک میں سبھی انسانوں کو یہ حقوق مل رہے ہیں ۔ کیا ہر ایک انسان کے ساتھ یکساں معاملہ برتا جارہا ہے ۔ اکیسویں صدی میں یہ دعوی ضرور کیا جاتا ہے کہ انصاف ہر ایک کا حق ہے ۔ مساوات اور آزادی ہر ایک کو ملنی چاہیئے لیکن سچائی اس کے برعکس ہے ۔ آج بھی دنیا میں نسل ۔ مذہب ۔ علاقہ ۔ رنگ اور نسل کی بنیاد پر امتیاز برتاجاتاہے ۔ کسی کو بڑاو ر کسی کو چھوٹا سمجھاتا ہے ۔ غربت اور امیری کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان شدید امتیاز برتا جاتا ہے ۔ کسی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور کسی کو قدر کی نگاہ سے جبکہ انسانی وصف کے اعتبار سے دونوں یکسا ہیں ۔ دونوں کی حیثیت ایک ہے ۔ دونوں یکساں سلوک کے مستحق ہیں ۔ دونوں تعظیم اور تکریم کا حقدار ہے لیکن دنیا نے اپنا ایک نظام بنالیا ہے جس کی بنیاد پر تفریق برتی جاتی ہے ۔ انسان کو انسان نہیں سمجھاتا ہے ۔ انسان کی تکریم کی بجائے اس کی تذلیل اور تحقیر کی جاتی ہے ۔ زندگی کے ہر موڑ پر انسانوں کی توہین آج کی دنیا کا فیشن بن گیا ہے ۔ انسانیت کی یہ تذلیل اور تحقیر دنیا کیلئے سیاہ داغ اور کلنک ہے ۔ انسانی وقار کے شدید منافی ہے ۔ انسانیت اس سے مجروح ہورہی ہے اور لوگوں میں انسانی اقدار کی خلاف ورزی اس وجہ سے پیدا ہوچکی ہے کہ ان میں تقوی نہیں ہے ۔ ان کے دل خشوع و خضوع سے خالی ہیں ۔ ان کے سینوں میں اللہ تعالی کا ڈر اور خوف نہیں ہے۔ ان کے دل میں کسی کا احترام نہیں ہے ۔ وہ خود کو کسی کے سامنے جوا بدہ نہیں سمجھتے ہیں ۔ تقوی کی کمی انسان کو انسان سمجھنے سے دور کررہی ہے ۔ عدم تقوی کے سبب دلوں میں انسانی احترام نہیں پایاجاتاہے ۔ تقوی کے فقدان نے انسانوں کو انسانیت سے محروم کردیا ہے ۔
انسانیت کے فروغ ۔ انسانیت کی ترقی ۔ انسانیت کی تعظیم ۔ انسانیت کی تکریم اور انسانیت کا احترام اسی وقت ممن ہوسکتاہے جب دلوں میں تقوی پایا جائے گا ۔ انسان متقی جیسے اوصاف سے سرشار ہوگا اور اس موقع پر مسلمانوں کی ذمہ داری بنتاہے کہ وہ اپنے تقوی کا عملی اظہار کریں ۔ ماہ رمضان میں جو تقوی پیدا ہواس اس کا عملی نمونہ پیش کریں ۔ اپنے اعمال اپنے کردار اور اپنی سرگرمیوں سے احترام انسانیت کا عملی مظاہرہ کریں اور یہ بتائیں کہ ان کا تعلق اس قوم سے جنہوں نے اکرام انسانیت کا حکم دیا ہے ۔ قرآن کریم میں تکریم انسانیت کو ضرروی بتایا گیا ہے ۔
مارہ رمضان قریب میں گزرا ہے ۔ تقوی اور للہیت کا یہ ماہ تھا ۔ اس لئے ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس موضوع پر غور و فکر کریں ۔ انسانیت کو فروغ دیں ۔ انسانوں کو استحصال سے بچائیں ۔ پوری دنیا ئے انسانیت کو ان کا حق دلائیں اور یہ کوشش کریں کہ ہر ایک انسان کو ہر ایک شہری کو اس کا بنیادی حق ملے ۔ انصاف ، مساوات ، آزادی اور بھائی چارہ کا پرچم بلند ہو ۔ یہ اسلام کا پیغام ہے ۔ یہی اسلام کا تقاضا ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا ہم سبھی کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ اگر یہ نہیں ہوا تو دنیا تباہ ہوگی ۔ امن و امان کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ امریکہ میں جاری تازہ احتجاجات ہمارے سامنے ہیں جہاں سیاہ فامو ں کو سفید فاموں کے مقابلے میں کمتر اور حقیر سمجھا گیا ۔ دونوں میں نسلی بنیاد پر تفریق برتی گئی تو آج دنیا کا یہ ترقی یافتہ ملک سراپا احتجاج بن گیاہے اور پوری دنیا تک اس کے شعلے پہونچ گئے ہیں ۔ اس لئے پوری دنیا انسانیت کو چاہیے کہ وہ اسلام کے پیام کو عام کرے ۔ انسانوں کو درمیان کسی بھی طرح کی تفریق بند کرے ۔ سبھی کو یکساں حقوق دے ۔ انصاف ، مساوات ، آزادی او ر تحفظ کو ہر ایک شہری کا بنیادی حق بتائے اور اس مہم کو کامیاب بنانے میں مل جل کر ایک ساتھ کام کریں ۔ہم سب مل کر اس پیغام کو عوام اور تمام بنی نوع انسان تک پہونچائیں ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں