کورونا کے بہانے آواز بند کرنے کا منصوبہ، حکومت کا رویہ افسوسناک 

کرونا نے نہ صرف ہمارے ملک ہندوستان کو بلکہ پوری دنیا کو ہر اعتبار سے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔ اسی کرونا نے موجودہ سرکار مودی کے دل کی مرادیں بھی پوری کی ہیں ۔ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت مودی نےبھی اس کرونا کا بھر پور فائدہ اٹھا یا ۔ جب کرونا کی آمد کی اطلاع اور اس کے خطر ناک نتائج ذرائع ابلاغ نے اس سال کی شروعات میں ہی دے دی تھی اور اس وبائی وائرس سے اموات کی شرح میں اضافے کے اندیشے سے بھی ظاہر کئے تھے مگر حکومت نے اسے سنی ان سنی کردی تھی ، ملک میں کرونا کی تباہ کاری نے جب اپنا قدم پورے طور پر جما لیا تب حکومت پر تنقیدیں ہونی شروع ہوئیں مگر حکومت سے باز پرس کرنے کی ہمت کسی میں نہ تھی ۔ ایک واحد عدالت جس سے انصاف ملنے کی امیدیں تھیں وہ بھی مودی کے تلوے چاٹنے کو ہی انصاف اور دیش بھکتی سمجھنے لگی ۔ جب ملک میں منصفوں کا یہ حال ہو تو باقی حکومتی محکموں کا کیا پوچھنا ۔ جب کرونا پورے ملک میں خاموشی کے ساتھ اپنا شکار کر رہا تھا تب اس وقت مودی حکومت دہلی انتخابات میں مصروف تھی اور ایم پی میں کانگریسی سرکار کو گرانے کے لئے خریدو فروخت میں لگی تھی ۔ اس سے صاف ظاہر تھا کہ حکومت جان بوجھہ کر اس وبا کو ملک میں پھیلنے کی منتظر تھی ۔ اور جیسے ہی کرونا نے تباہی مچانی شروع کی تو موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نوٹ بندی کی طرح اچانک مودی نے راتوں رات ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ۔ دوسرے ہی دن سے پورا ملک خاموشیوں میں ڈوب گیا اور قبرستان جیسا سناٹا چھا گیا ۔ ہر طرف مایوسی بےچینی اور پریشانیوں کے ساتھ لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ۔ صبح سے شام اور رات سے صبح ہوتی رہی ۔ سڑک پر پولیس کے نا حق مظالم اور ڈنڈے برسائے جانے کے نظارے سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتے رہے ۔ اس ہو کے عالم میں ضرورت مند لوگ بھی اپنے گھروں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا کیونکہ انہیں ناحق پولس کی غنڈہ گردی کا شکار ہونا گوارہ نہیں تھا ۔ جان بوجھ کر سڑکوں پر ایسی ہیبت و دہشت طاری کی گئ کہ باہر نکلنے سے لوگ گھبرانے لگے ۔ دہشت ناک ماحول پیدا کرکے مودی و امیت شاہ نے اپنے تمام مخالفین سے چن چن کر بدلا لینا شروع کیا اور انصاف پسند اور دانشوروں کی گرفتاریوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا جو کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی ۔ لاک ڈاؤن کی دہشت ناک ماحول میں لوگ اس ظلم و بر بریت کے خلاف آوازیں اٹھانے بھی تو کیسے ؟ اگر لاک ڈاؤن نہیں ہوتا تو شاید اتنی آسانی سے گرفتاریاں ممکن نہیں ہوتی ۔ منصوبے کے تحت لاک ڈاؤن کا اچانک ظہور میں لانا اسی مقصد کے تحت تھا کہ یہ دونوں اپنے مخالفین سے بہ آسانی نپٹ سکے ۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جو بھی دانشور افراد احتجاج میں شامل تھے ان پر ناحق مظالم ڈھائے جانے لگے اور پھر گرفتاریاں عمل میں آنے لگی ۔ ان لوگوں کے ساتھ ایسا برتاؤ پولس نے کیا کہ گویا وہ خوفناک مجرم ہوں ۔ وجہ بتائے بغیر گھروں میں زبر دستی گھس کر پولس نے انہیں گرفتار کر کے ایسی جگہوں پر ان بے قصوروں لے جایا گیا جس کی خبر ان کے گھر والوں کو آج تک نہیں مل پائی ۔ لاک ڈاؤن میں تھوڑی ڈھیل دینے کے بعد بھی ہنوز پابندیاں قائم ہیں ۔ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد شاید لوگ ان نا حق گرفتاریوں کو بھول چکے ہوں گے اور شاید مودی کو اپنے مخالفین سے خاموشی کے ساتھ نپٹنے اور انہیں ٹھکانے لگانے کا اس سے بہتر راستہ کوئی اور نہیں ہوتا ۔ منصوبہ بند طریقے کے تحت مودی حکومت نے کرونا کو ملک میں پھلنے پھولنے کا بھر پور موقع دیا اور جب اس کی تباہ کاریاں اپنا رنگ دکھانے لگی تو مودی نے کرونا کی روک تھام کے بہانے لاک ڈاؤن کا جواز پیدا کرلیا اور چند بے قصور اور حق و انصاف کے طرف دار اور طلب گار جو مودی کی نظروں میں خوف ناک مجرم تھے ان کو ٹھکانے لگانے کی خاطر پورے بھارت کو شمشان گھاٹ میں تبدیل کر دیا ۔

اور سب بھول گئے صرف صداقت لکھنا

رہ گیا کام ہمارا ہی بغا وت لکھنا

(شہزاد تمنا ، نگرڈیہ ، دربھنگہ بہار )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں