اردو بازار : کتابوں سے کبابوں تک

معصوم مرادآبادی
میر تقی میر نے دہلی کے گلی کوچوں کو ’اوراق مصور‘سے تشبیہ دی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں ادبی، تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور یہاں ہرطرف شعر و شاعری کا دور دورہ تھا۔ دہلی کے کوچہ و بازار اپنی رونقوں اور رعنائیوں کے اعتبار سے کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔دہلی کی سماجی اور ادبی زندگی اپنی مخصوں قدروں کی وجہ سے ایک منفرد اور یکتا مقا م کی حامل تھی۔ لیکن آج ہم جس دہلی کے باسی ہیں، اس میں وہ تمام تہذیبی قدریں دم توڑرہی ہیں جن سے کسی زما نے میں اس شہر کی پہچان رہی ہے۔ان میں دہلی کا مشہور زمانہ اردو بازار بھی ہے، جوکبھی دہلی کی ادبی اور ثقافتی زندگی کا لازمی حصہ تھا اور جہاں کے درجنوں کتب خانے پورے ملک میں پہچانے جاتے تھے۔یہ کتب خانے محض کتابوں کے محل ہی نہیں تھے بلکہ ان میں شعر وادب کی بڑی بڑی ہستیاں اپنا وقت گزارتی تھیں اور یہاں کی رونقوں کو دوبالا کرتی تھیں۔اب اس اردو بازار کی رونقیں ماند پڑگئی ہیں اور یہ اپنی تاریخ کے آخری پڑاؤ پر نظر آتا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے آئیے ایک نظر اردو بازار کی تاریخ پر ڈالتے ہیں۔ سرسید احمد خاں اور مولوی بشیر الدین احمد نے لکھا ہے کہ بازار چاندنی چوک کا پہلا حصہ اردو بازار کہلاتا تھا۔ ’فرہنگ آصفیہ‘ کے مولف مولوی سید احمد نے اپنی جائے پیدائش کوچہ بلاقی بیگم واقع اردو بازار لکھی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ بازار چاندنی چوک کی سڑک کے جنوبی پہلو پر واقع تھا۔ میر مہدی مجروح بھی اسی اردو بازار کے مکین تھے۔1857کے انقلاب کے بعد اس اردو بازار کا نام و نشان مٹ گیا۔ مولانا حفیظ الرحمن واصف کے مطابق موجودہ اردو بازار کی تخلیق کچھ اس طرح ہوئی کہ 1937میں خواجہ حسن نظامی نے جگت ٹاکیز کے پاس ایک مکان خرید کر اس کا نام ’اردو منزل‘ رکھا اور اس بازار کا نام اردو بازار تجویز کیا۔ انھوں نے ان دونوں کے ٹائل بنواکر مکان کی دیوار پر لگوائے۔ اس کو علاقہ کے اہل علم کے علاوہ ان تاجران کتب اور ناشروں نے بھی پسند کیا جن کے دفتر اور دکانیں اس بازار میں موجود تھیں۔ سب نے اس کی تشہیر شروع کردی۔ چار پانچ سال بعد مقامی دکانداروں نے ایک قرار داد پاس کرکے اس کی باقاعدہ تجویز صدر بلدیہ کو بھیج دی۔ میونسپل کمیٹی کے معزز ممبر اور مشہور ادیب ملا واحدی کی کوششوں سے یہ تجویز منظور ہوگئی اور سرکاری حکم سے اردو بازار کے نام کے بورڈ آویزاں ہوگئے۔ اس طرح اردو بازار ایک بار پھر زندہ ہوگیا۔ لیکن آج 83 سال بعد ایک بار پھر اس اردو بازار کے وجود پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں، کیونکہ یہاں سے نہ صرف اردو کتابوں کی دکانیں اور تاریخی کتب خانے ختم ہورہے ہیں بلکہ نئی دکانوں کے بورڈوں سے اردو کا نام و نشان بھی مٹ رہا ہے۔
اردو بازار کسی زمانے میں مختلف اور متنوع موضوعات کی اردو کتابوں کے لئے مشہور تھا۔یہاں دور دور سے علم وادب کے شائقین اپنی پیاس بجھانے آتے تھے۔ شعر و ادب ، تاریخ، فکشن، علم نجوم، فلسفہ اور منطق ہرموضوع کی کتابیں یہاں دستیاب ہوتی تھیں۔ رات گئے اس اردو بازار میں شعر و ادب کی محفلیں آراستہ ہوتی تھیں اور نامی گرامی ادیبوں اور شاعروں کا میلہ لگا رہتا تھا۔ اس معاملے میں مولوی سمیع اللہ قاسمی کا کتب خانہ عزیزیہ خاص طور سے مشہور تھا، جہاں ہمارے عہد کی بڑی بڑی علمی اور ادبی شخصیات نے اپنا وقت گزارا۔ ان میں سائل دہلوی، بیخود دہلوی، مولاناحسرت موہانی، جگر مرادآبادی، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری، ساحر لدھیانوی نوی، مجروح سلطانپوری، حفیظ جالندھری اور شکیل بدایونی غرضیکہ اردو کا ایسا کون سا شاعر، ادیب، صحافی اور دانشور تھا جس نے اردو بازار میں مولوی سمیع اللہ کے کتب خانے کے باہر لکڑی کے تخت اور بینچ پر بیٹھنے کی سعادت حاصل نہ کی ہو۔ ہندوستان کے ان گنت مشاعروں کی ترتیب اور انتظام یہیں ہوا کرتا تھا۔ رات گئے تک شعر وسخن کی محفل جمی رہتی تھی۔ جگر مرادآبادی کی خوبی یہ تھی کہ وہ مشاعرے کے علاوہ کہیں بھی اپنا کلام نہیں سناتے تھے، لیکن دہلی میں قیام کے دوران وہ مولوی سمیع اللہ کی دکان پر رات دو بجے تک اپنا کلام سناتے رہتے تھے۔ مفتی کفایت اللہ کے داماد مولوی سمیع اللہ قاسمی کوئی ادبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی ان کا کتب خانہ عزیزیہ ادبی کتابوں کا مرکز تھا۔ وہ خالص مذہبی کتابیں فروخت کرتے تھے اور اس کے ساتھ ہی لٹھے کے تھان بیچتے تھے، لیکن شعر و ادب کی دنیا میں ان کے کتب خانے کا بڑا شہرہ تھا اور ہر بڑا ادیب اور شاعر یہاں آنا اپنے لئے باعث افتخارسمجھتا تھا۔
اردو بازار نے اردو پبلشنگ انڈسٹری کے حوالے سے بڑی شہرت حاصل کی۔ جس کسی کو کوئی کتاب شہر کے کسی حصے میں نہیں ملتی تھی وہ آنکھ بند کرکے اردو بازار چلا آتا تھا اور بامراد واپس جاتا تھا۔ لیکن اب یہ اردو بازار آہستہ آہستہ اپنی تاریخ اور تہذیب سے دور ہوتا چلا جارہا ہے اور یہاں کتب خانوں کی جگہ کبابوں کی دکانیں کھل رہی ہیں۔ اگر آج کی تاریخ میں آپ اردو بازار کی پرانی رونقوں کو ذہن میں سجاکر وہاں جائیں گے تو آپ کو بڑی مایوسی ہوگی۔ کیونکہ جن کتب خانوں سے آپ نے کبھی سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر، صادق سردھنوی، الیاس سیتاپوری اور واجدہ تبسم کے ناول خریدے تھے، جہاں آپ نے میر و غالب ، مومن و ذوق اور داغ و فراق کے دیوان خریدے تھے، وہاں آج آپ کو چکن فرائی، چکن تندوری، تلی ہوئی مچھلی اور بڑے کے کباب کھانے کو ملیں گے۔ ان چیزوں سے آپ لذت کام و دہن کا تو کام لے لیں گے، لیکن آپ کا ادبی ذوق اور مطالعے کا شوق تشنہ کام ہی رہے گا۔
ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ اس اردو بازار تک پہنچنے کے لئے آپ کو اپنی ناک پر رومال رکھنا پڑتا تھا ۔ کیونکہ راستے میں یہاں مرغ، مچھلی اور انڈے کی ہول سیل مارکیٹ تھی۔ اردو کتابوں سے عشق کرنے والے اس تعفن کو برداشت کرتے ہوئے اردو بازار تک پہنچتے تھے۔ خدا خدا کرکے مرغ، مچھلی اور انڈوں کی ہول سیل مارکیٹ یہاں سے غازی پور منتقل ہوئی تو لوگوں کو آسانی میسر آئی، لیکن آسانی کا یہ دورانیہ کچھ زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہا، کیونکہ اردو بازار میں مرغ، مچھلی اور انڈوں نے اپنی ہیئت تبدیل کرلی اور وہ کبابوں کی شکل میں نظر آنے لگے۔ تاریخی نوعیت کے کتب خانوں پر آویزاں بورڈ اتار کر وہاں مرغ و ماہی کے بورڈ آویزاں کئے جانے لگے۔ ہم جیسے کتابوں کے شائقین یہ سب کچھ دیکھ کر ملول ہونے لگے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اردو بازارصرف اپنی اردو کتابوں کے لئے ہی مشہور نہیں تھا بلکہ اس کے آخر میں یعنی مٹیا محل کے نکڑ پر اردو اخبارات و جرائد کی کا ایک ایسا اسٹال بھی تھا جہاں آپ کو ہندوستان کے ہر خطے سے شائع ہونے والے ہفتہ وار اخبارات اور ماہنامہ جریدے آسانی سے دستیاب ہوجاتے تھے۔ اس اسٹال کی بھی یہ خوبی تھی کہ یہاں اردو کے بڑے بڑے صحافی اور ادیب آکر کھڑے ہوتے تھے۔ اسٹال کا مالک نادہند ضرور تھا لیکن اخبارات و جرائد کے مالکان اس اسٹال پر اپنے اخباروں اور جریدوں کو ضرور دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ جو شہرت ان کے اخبارات و جرائد کو یہاں ملتی تھی وہ کہیں اور نہیں ملتی تھی۔ ہر ادبی، نیم ادبی، فلمی اور جاسوسی جریدہ اس اسٹال پر دستیاب ہوتا تھا، لیکن اب ایوریسٹ نیوز ایجنسی نام کا یہ اسٹال بھی صرف مذہبی کتابیں ہی رکھتا ہے کیونکہ فی زمانہ ان کی ہی ڈیمانڈ ہے اور وہ بھی اردو سے زیادہ ہندی میں۔
جگت ٹاکیز سے شروع ہوکر حاجی ہوٹل تک یہ شاہراہ کسی زمانے میں اردو زبان و اردو تہذیب کا ایک اہم مرکز تھا۔ افضل پشاوری کے ہوٹل جہاں شاعروں اور ادیبوں کی پناہ گاہ ہوا کرتے تھے تو وہیں حاجی ہوٹل میں بڑے بڑے اور نامی گرامی شعرائے کرام آکر قیام کرتے تھے۔درمیان میں میر مشتاق احمد کا قایم کیا ہوا جنتا کوآپریٹیو بینک، استاد رسا دہلوی کی چہل قدمی اور سراج انور کا فوٹو اسٹوڈیو، بندو پان والا اور اسی گلی میں مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے اشاعتی ادارے ندوۃ المصنفین کا دفتر تھا اور یہیں سے ان کا علمی جریدہ ’برہان‘ شائع ہوتا تھا۔ مولانا شوکت علی فہمی کے مشہور رسالے ’دین دنیا‘ کا دفتر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ غرضیکہ اردو بازار کی یہ شاہراہ اپنی سرگرمیوں کے لئے چہار دانگ عالم میں مشہور تھی، لیکن اب یہاں ہر طرف کھانے کے ہوٹل، فرائی مچھلی اور مرغ کے علاوہ کباب اور تکے نظر آتے ہیں۔ درجنوں کتب خانوں میں اب لے دے کر علمی اور ادبی کتابوں کی دو چار دکانیں ہی بچی ہیں۔ ایک مکتبہ جامعہ اور دوسرے کتب خانہ انجمن ترقی اردو، جہاں آپ کو اپنے مطلب کی کتابیں میسر آسکتی ہیں۔ کتب خانہ انجمن ترقی اردو کے بانی اور ہمارے کرم فرما منشی نیاز الدین مرحوم کے صاحب زادے نظام الدین نے اردو ادب اور فنون کی کتابوں کی جو اشاریہ سازی کی ہے وہ واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور ایک مستقل کتاب کی شکل میں شائع کئے جانے کے لائق ہے۔
باقی رہے نام اللہ کا

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں