استنبول کی ’ آیا صوفیہ‘ مسجد کیا دوبارہ مسلمانوں کے حوالے کی جا سکے گی؟ عدالت کا فیصلہ جلد

عثمانیہ سلطنت کی یادگار اس مسجد کو مصطفیٰ کمال اتاترک نے ۱۹۳۵؁ء میں میوزیم بنادیا تھا، رجب طیب اردگان اپنے انتخابی وعدے کے مطابق اسے مسجد کا درجہ دینے کیلئے کوشاں

استنبول میں واقع تاریخی مسجد کا داخلی حصہ

ترکی میں کونسل آف اسٹیٹ یہ فیصلہ کرنے والا ہے کہ استنبول میں موجود’ آیا صوفیہ‘ کو ایک مسجد میں تبدیل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ یہ عمارت چھٹی صدی میں بازنطینی بادشاہ جسٹین اول نے بنوائی تھی اور تقریباً ایک ہزار سال تک یہ دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھر تھی۔ سلطنتِ عثمانیہ نے جب ۱۴۵۳ء میں اس شہر کو فتح کیا تو اسے ایک مسجد بنا دیا گیا تاہم بعد میں ۱۹۳۰؁ء کی دہائی میں اسے ایک میوزیم میں تبدیل کردیا گیا ۔ لیکن اگر اب عدالت نے اجازت دی تو اسے دوبارہ ایک مسجد بنایا جائے گا۔ یہ عمارت اقوام متحدہ کی عالمی وراثت کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ گزشتہ سال اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر طیب اردگان نے تبدیلی کا وعدہ کیا تھا۔ترکی میں مسلمان کئی سال سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسے دوبارہ مسجد بنایا جائے، لیکن ترکی میں ’ سیکورلر ‘ کہلانے والا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس فیصلے کی مخالفت کر رہا ہے۔

   اس تجویز پر مشرقی آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ نے اعتراض کیا ہے۔ یونان نے بھی اس کی مخالفت کررہا ہے جہاں لاکھوں آرتھوڈوکس عیسائی رہتے ہیں۔ یونانی وزیر برائے ثقافت نے تو ترکی پر مذہبی جذبات بھڑکانے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیسکو کی ورلڈ ہیری ٹیج سائٹ کو تنظیم کی اپنی کمیٹی سے منظوری کے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ادھر یونیسکو کے ڈپنی ڈائریکٹر ارنیسٹو رامیریز نے بھی ترکی حکومت کے اس فیصلے پر اعتراض ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیسکو نے ترکی کو اس سلسلے میں خط لکھا ہے تاہم ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔

تاریخ کیا ہے؟

 یہ معروف عمارت استنبول کے فیتھ ڈسٹرکٹ میں سمندر کے کنارے واقع ہے۔بازنطینی بادشاہ جسٹین اول نے اس کی تعمیر کا حکم ۵۳۲؁ء میں دیا تھا جب اس شہر کا نام قسطنطنیہ تھا۔ یہ بیزنٹائن سلطنت (جسے مشرقی رومی سلطنت بھی کہا جاتا ہے) کا دارالحکومت بھی تھا۔ ۵۳۷؁ء میں جب یہ عمارت مکمل ہوئی تو یہ آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ کا مقام بن گئی۔ تقریباً ۹؍ سو سال تک یہ عمارت آرتھوڈوکس چرچ کا گھر رہی۔ تا ہم ۱۴۵۳؁ء میں سلطنتِ عثمانیہ نے سلطان محمد دوم کے دور میں قسطنطنیہ پر قبضہ کیا ، شہر کا نام تبدیل کر کے استنبول رکھا اور بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ اس عمارت میں داخل ہوتے وقت سلطان محمد دوئم کا اصرار تھا کہ اس کی تعمیرِ نو کی جائے اور اسے ایک مسجد بنایا جائے۔ انھوں نے اس میں جمعے کی نماز بھی پڑھی۔ ۱۹۱۸؁ء میں سلطنت عثمانیہ کو پہلی جنگِ عظیم میں شکست ہو گئی۔ ترکی میں قوم پرست سیاسی قوتوں نے قبضہ جمالیا اور مصطفیٰ کمال اتاترک نے عمارت کو ایک میوزیم بنانے کا حکم دیا اور ۱۹۳۵؁ء میں اسے عوام کیلئے کھول دیا گیا۔ یہ ترکی کی اہم ترین سیاحتی عمارتوں میں سے ایک ہے۔

(بشکریہ انقلاب) 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں