کورونا وائرس کی سبب امسال حج کے تقریباً منسوخ کردینے کے فیصلے سے جہاں دنیا بھر کے مسلمان غمزدہ ہیں وہیں لاکھوں سعودی تاجر بھی ممکنہ مالی نقصان کے خدشے سے پریشان ہیں۔
حج کو اس سرزمین پر سب سے بڑا اجتماع قرار دیا جاتا ہے۔ ہر برس پچیس سے تیس لاکھ کے قریب افراد حج کرنے کے لیے سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ آتے ہیں۔ تاہم کووڈ19کی وجہ سے اس سال صرف ایک ہزار کے قریب لوگوں کو ہی حج کی اجازت دی جائے گی۔ البتہ حتمی تعداد کا اعلان ابھی نہیں کیا گیا ہے۔
گزشتہ برس پچیس لاکھ افراد نے فریضہ حج ادا کیا تھا۔ اس میں سعودی عرب کے تقریباً آٹھ لاکھ اور دنیا کے دیگر ملکوں کے اٹھارہ لاکھ مسلمان مکہ مکرمہ آئے تھے۔ لیکن سعودی حکومت کے فیصلے سے جہاں دنیا بھر کے مسلمان دکھی ہیں وہیں ایسے لاکھوں سعودی شہری بھی پریشان ہیں جن کی معیشت کا بڑی حد تک انحصار حج پر ہوتا ہے۔
12ارب ڈالر کا نقصان
ماہرین کہتے ہیں کہ سعود ی عرب کی معیشت کا تیل کے بعد سب سے زیادہ انحصار حج او رعمرہ سے ہونے والی آمدنی پر ہے۔ لیکن کورونا وائر س کی وبا کے سبب عمرہ پر مکمل پابندی اور حج کو برائے نام کرنے کی وجہ سے سعودی معیشت کو زبردست دھچکا لگے گا۔ شہر کے تمام بڑے ہوٹل خالی پڑے ہیں جبکہ عام طورپر یہ ایام حج سے ایک ماہ پہلے ہی بھر جایا کرتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق مقامی لوگوں کو حج سے ہونے والی 12 ارب ڈالر کی آمدنی کا خسارہ ہوسکتا ہے۔
ہر برس پچیس سے تیس لاکھ کے قریب افراد حج کرنے کے لیے سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ آتے ہیں۔
مکہ مکرمہ میں مسجد حرم کے سامنے عطریات کی دکان کے مالک مقامی تاجر ہاشم طیب کہتے ہیں ”مجھے فی الحال اپنی دکان بند کرنی پڑی ہے۔ بہت سے ریستوراں بھی بند ہیں، حجام کی دکانیں اور دیگر تجارتی ادارے بھی بند پڑے ہیں۔ اس سے یقیناً سب لوگ اور بالخصوص ٹریول ایجنٹ متاثر ہوں گے۔