کامران غنی صباؔ
(شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور)
مرتضی ساحل تسلیمی۔بچپن میں یہ نام زندہ قلمکاروں میں سب سے پہلے رول ماڈل بن کر ابھرا۔ ہمارے یہاں ماہنامہ نور، بتول اور ماہنامہ ہلال یہ وہ رسالے تھے جو پابندی سے آتے تھے۔ ان رسالوں کا کریز اتنا تھا کہ ہم بھائی بہنوں میں جس کے ہاتھ کوئی رسالہ پہلے لگ جاتا وہ اسے اس وقت تک چھپا چھپا کر رکھتا تھا جب تک وہ اسے پوری طرح چٹ نہ کر جائے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں ساتویں جماعت میں تھا تو ماہنامہ نور کے قلمی دوستی کے کالم میں میرا مختصر سا تعارف اور پتہ شائع ہوا تھا۔ پہلی بار پکی روشنائی میں اپنا نام دیکھ کر مجھے کتنی خوشی ہوئی تھی یہ میں بیان ہی نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد مجھے کچھ خطوط بھی موصول ہوئے اور میرے اندر قلمی دوستی کا ایسا شوق پروان چڑھا جو گریجویشن تک بدستور بڑھتا ہی رہا۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خطوط نویسی کے شوق نے میری ادبی و صحافتی نشو نما میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ ماہنامہ نور میں ہی خطوط کا الگ سے ایک کالم ہوتا تھا جس میں مرتضی ساحل تسلیمی صاحب خطوط کا بہت ہی دلچسپ انداز میں جواب دیا کرتے تھے۔مجھے ماہنامہ نور کا یہ کالم اتنا پسند تھا کہ عموماً میں اس حصے کو سب سے پہلے پڑھتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے ساحل صاحب سے خط لکھ کر گزارش کی تھی کہ نور میں تو آپ جواب دیتے ہی ہیں اس بار مجھے آپ کا تحریری جواب ڈاک سے چاہیے۔ امید ہے کہ آپ محروم نہیں کریں گے۔ ساحل صاحب نے میرے اس خط کا جواب الگ سے پوسٹ کارڈ پر اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجا۔ یہ پوسٹ کارڈ میرے پاس ابھی بھی محفوظ ہے۔اس وقت میں دسویں جماعت میں تھا۔ مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب کا وہ جوابی خط میرے لیے کسی انعام سے کم نہیں تھا۔ میں نے اس خط کو بار بار پڑھا تھا اور دل ہی دل میں اتنا خوش ہوا تھا کہ ایک بڑے قلم کار اور مدیر نے میرے خط کا ذاتی طور پر جواب دیا تھا۔
سچ پوچھیے تو ادارہ الحسنات کے رسائل نے مجھ جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کے بچپن کی آبیاری کی ہے۔بہت ممکن ہے کہ اگر ادارہ الحسنات کے رسائل نے بچپن میں ذہن و شعور کو بیدار نہ کیا ہوتا توعلم و ادب کی پیاس احساسِ تشنگی سے ہمیشہ محروم ہی رہ جاتی ۔
ادارہ الحسنات ایک تو نجی ادارہ اس پر اس کی مذہبی شناخت۔ یہی وجہ ہے کہ مرتضی ساحل تسلیمی جیسی شخصیت ساز اور کردار ساز شخصیتیں وہ مقام حاصل نہ کر سکیں جس کی وہ مستحق تھیں۔ مرتضی ساحل تسلیمی کچھ روز بیمار رہے اور پھر خاموشی کے ساتھ انہوں نے اپنی سانسیں بھی اسی طرح بند کر لیں جس طرح خاموشی سے ادارہ الحسنات کے رسائل بند ہوئے۔برسہا برس تک نوجوانوں کی ذہنی تربیت کرنے والے رسائل ایک ساتھ بند ہوئے ہم افسوس کا اظہار کر کے مطمئن ہو گئے۔ انبوہ روپے آرائش و زیبائش اور خورد و نوش پر ضائع کرنے والی قوم اپنی علمی وراثت کی حفاظت کے لیے آگے نہ آ سکی۔ادارہ الحسنات کے رسائل سسک سسک کر نکلتے رہے ۔ طوفان کی زد پر جلنے والی شمع کب تک اپنے وجود کی حفاظت کرتی۔ آخر کار رسائل کو بند کر دینے کا اعلان کر دیا گیا۔مرتضیٰ ساحل تسلیمی نے بھی شاید یہ محسوس کر لیا تھا کہ ان کے رسالوں کی طرح شاید اب ان کے وجود کی بھی دنیا کو ضرورت نہیں رہی۔ وہ بیمار ہوئے، انہیں اسپتال میں داخل کیا گیا لیکن انہوں نے تو دعا کے لیے بھی ہمیں زیادہ مہلت نہ دی اور قوم کی تربیت کا انعام حاصل کرنے ، اس بادشاہ کے پاس چلے گئے، جہاں صرف محنت کا ہی نہیں نیتوں کا بھی بدلہ ملتا ہے۔ قوم تو مرتضیٰ ساحل تسلیمی کو ان کی خدمات کا کوئی انعام نہ دے سکی لیکن ہمیں یقین ہے کہ اب ان کے انعامات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہوگا۔’’بلا شبہ اللہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘ (قرآن)