ڈھاکہ :میانمار میں سکیورٹی فورسز اور روہنگیا باغیوں کے مابین ہونے والی شدید جھڑپوں کے تین سال مکمل ہونے پر بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین نے منگل کے روز خاموش احتجاج کیا۔اس بدامنی کے نتیجے میں روہنگیا اقلیتی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اپنی جانیں بچا کر نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش پہنچی تھی۔
اس وقت ایک ملین روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور اس جنوبی ایشیائی ملک کا ایک حصہ دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ بن کر رہ گیا ہے۔ ان نہتے روہنگیا مہاجرین کا حال ناگفتہ بہ ہے اور مستقبل تاریک۔ روہنگیا مہاجرین کے میانمار واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ماضی میں برما کہلانے والے اس ملک میں روہنگیا مسلمانوں کو نہ تو مقامی شہریت حاصل ہے اور نہ ہی بنیادی انسانی اور شہری حقوق۔
روہنگیا مہاجرین نے بنگلہ دیش میں اپنی صورت حال اور ایک اقلیت کے طور پر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور انسانی حقوق کی پامالی پر منگل 25 اگست کو ‘یادگاری دن‘ منایا تو مگر خاموش احتجاج کرتے ہوئے، جس کی وجہ کورونا وائرس کی وبا بنی۔ بنگلہ دیشی حکام کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے مہاجر کیمپ میں اب تک کووڈ انیس کے 88 کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ یہی مہلک وائرس وہاں چھ افراد کی جان بھی لے چکا ہے۔
تین سال قبل میانمار میں فسادات اس وقت پھوٹ پڑے تھے جب رونگیا باغیوں نے ملکی پولیس کی 30 چوکیوں پر حملے کیے تھے۔ ریاست راکھین میں ایک فوجی اڈے پر بھی حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں ملکی سکیورٹی فورسز کے کم از کم 12 ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔
میانمار کی فوج کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی طرف سے اس بغاوت کے جواب میں انہیں ایک بڑا کریک ڈاو¿ن کرنا پڑا۔ ملکی سکیورٹی دستوں نے اس بغاوت کے خلاف جو مسلح کارروائیاں کیں، ان کے دوران اپنی جانیں بچا کر فرار ہونے پر مجبور سات لاکھ تیس ہزار روہنگیا باشندے پڑوسی ملک بنگلہ دیش پہنچے، جہاں پہلے ہی سے دو لاکھ روہنگیا مسلمان پناہ لیے ہوئے تھے۔ آج بروز منگل بنگلہ دیش میں ان خونریز واقعات کو یاد کرتے ہوئے ان روہنگیا پناہ گزینوں میں سے ایک نے کہا، ”ہمیں ہماری دھرتی سے زبردستی نکال کر دنیا کے سب سے بڑے مہاجر کیمپ میں دھکیل دیا گیا۔“
اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاو¿ن کو ‘نسل کشی‘ کے ارادے سے کیا جانے والا اقدام قرار دیا ہے تاہم میانمار حکومت نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ملکی فوج نے روہنگیا باغیوں کے خلاف جو کارروائی کی وہ ‘جائز‘ تھی کیونکہ باغی دیہات کو نذر آتش کرتے ہوئے کئی طرح کی پرتشدد کارروائیاں کر رہے تھے۔
میانمار سے جان بچا کر بنگلہ دیش داخل ہونے والی بچی افیفہ بی بی چند گھنٹوں پہلے پیدا ہونے والے بھائی کو گود میں لیے۔
ان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمان کئی دہائیوں سے ‘درپردہ نسل کشی‘ کا شکار ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور دیگر اداروں سے اپیل کی ہے کہ 2017 ئ میں ہونے والے خونریز واقعات کو ‘نسل کشی‘ قرار دیا جائے۔ ان مہاجرین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ”براہ کرم، معصوم روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اس کے بعد ہی شاید ہم اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔“
روہنگیا مہاجرین کے لیے ایک خوشخبری یہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت نے پیر چوبیس اگست کو اعلان کر دیا کہ ان مہاجرین کے کیمپوں میں تیز رفتار موبائل انٹرنیٹ پر لگی پابندی جلد ہٹا دی جائے گی۔ حکام نے یہ پابندی گزشتہ برس یہ کہہ کر لگائی تھی کہ انہیں خدشہ تھا کہ ان کیمپوں میں سوشل میڈیا کو خوف و ہراس پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔(بشکریہ ڈی ڈبلیو)