بغداد
ملت ٹائمز
عراق کی پارلیمان نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت شراب کی فروخت ،درآمد اور تیاری پر پابندی عاید کردی گئی ہے۔اس قانون کی خلاف ورزی کے مرتکبین کو ڈھائی کروڑ دینار تک جرمانے کی سزا سنائی جاسکے گی۔عراقی پارلیمان نے یہ اچانک فیصلہ کیا ہے اور اس پر بعض اقلیتیں چیں بہ جبیں ہوسکتی ہیں۔اس پابندی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ عین آئین کے مطابق ہے کیونکہ اس میں اسلام کے منافی کسی بھی قانون کی ممانعت کی گئی ہے۔لیکن اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ پابندی ایک لحاظ سے آئین کی خلاف ورزی بھی ہے کیونکہ اس میں مذہبی اقلیتوں کی روایات کی پاسداری کی ضمانت دی گئی ہے۔پارلیمان کے ایک رکن اور ایک عہدے دار نے بتایا ہے کہ شراب پر پابندی سے متعلق دفعہ بلدیات کے بارے میں مجوزہ قانون کے مسودے میں آخری وقت میں شامل کی گئی تھی۔اس لیے اس کے مخالفین کچھ نہیں کرسکے ہیں۔
بغداد میں پارلیمان کے ارکان نے شراب پر ایسے وقت میں پابندی عاید کرنے کے لیے قانون سازی کی ہے جب عراقیوں اور پوری دنیا کی نظریں شمال میں داعش مخالف فیصلہ کن کارروائیوں پر مرکوز ہیں اور عراقی سکیورٹی فورسز کے ہزاروں اہلکار داعش کو موصل اور اس کے مضافات سے نکال باہر کرنے کے لیے گذشتہ سوموار سے فیصلہ کن کارروائی کررہے ہیں۔پارلیمان کے ایک مسیحی رکن یونادم کانا نے بتایا ہے کہ ”منظور کردہ قانون کی دفعہ 14 کے تحت ہرقسم کی شراب کی درآمد ،اس کی تیاری اور فروخت پر پابندی عاید کردی گئی ہے”۔انھوں نے مزید بتایا ہے کہ ”اس قانون کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کے مرتکب شخص پر ایک کروڑ سے ڈھائی کروڑ دینار (آٹھ ہزار ڈالرز سے بیس ہزار ڈالرز) تک جرمانہ عاید کیا جاسکے گا”۔ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کے خلاف ایک وفاقی عدالت میں اپیل دائر کی جائے گی۔
واضح رہے کہ عراق میں ہوٹلوں اور ریستورانوں میں تو گاہکوں کو شراب پیش نہیں کی جاتی ہے لیکن اس کا استعمال عام ہے۔ملک بھر اور خاص طور پر دارالحکومت بغداد میں بیسیوں چھوٹی دکانوں پر سرعام شراب اور شراب پر مبنی مشروبات فروخت کے لیے دستیاب ہیں جبکہ عراق میں متعدد کمپنیاں مختلف قسم کی شراب تیار کرتی ہیں۔ان میں فریدہ بیئر اور اثریا عراق نمایاں ہیں۔