ترک وزیر خارجہ کی اپنے جرمن ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس، جرمنی کی جانب سے گفتگو کے ذریعے مسئلے کوحل کرنے پر زور
انقرہ: (ایجنسی) ترک صدر رجب طیب اردگان کی جانب سے مشرقی بحیرہ روم میں قدرتی تیل اور گیس کی تلاش کیلئے جاری آپریشن کے دوران پڑوسی ملک یونان کی جانب سے ملنے والی سنگین دھمکیوں کے بعد ترکی نے بھی یونان کو انتباہ دیا ہے۔ ترک وزیر خارجہ مولود جاووش اوگلو نےیونان کو کسی بھی فوجی کارروائی کی صورت میں جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔
گزشتہ روز ترک وزیر خارجہ جاووش اوگلو نے اپنے جرمن ہم منصب ہیکو ماس کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مشرقی بحیرہ روم میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے ۔ اس کشیدگی کا ذمہ دار یونان ہے اور اسے اس کی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین اب بھی یونان کو پوری طرح سے مدد فراہم کر رہا ہے۔ یونان بحیرہ روم میں بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی اشتعال انگیزی جاری رکھے ہوئے ہے۔ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اپنے حقوق کا تحفظ کریں گے اور کسی کو ان سے تعصب کی اجازت نہیں دیں گے۔ یونان کا مصر کے ساتھ معاہدہ سمندری سرحدوں سے متعلق کسی بین الاقوامی قانون کے تابع نہیں ہے۔
دوسری طرف ہیکو ماس نے مشرقی بحیرہ روم میں ہونے والی پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم مشرقی بحیرہ روم میں کشیدگی کو کم کرنے اور یونان اور ترکی کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ترکی اور یونان کے درمیان فوجی حل ’پاگل پن‘ ہوگا لیکن انہوں نے زور دے کر کہا کہ کوئی اس تنازعہ کو فوجی ذرائع سے حل نہیں کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ملک بات چیت پر آمادہ ہیں۔انہوں نے اشارہ کیا کہ مشرقی بحیرہ روم میں تناؤ میں اضافہ ترکی ، یونان یا یورپی یونین کے لیے مثبت نتائج کا باعث نہیں ہو گا۔
امریکہ کی ترکی کو دھمکی
ادھر امریکہ نے رجب طیب اردگان کی حماس کے سربراہ سے ملاقات پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے ترکی کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کی دھمکی دی ہے۔اطلاع کے مطابق گزشتہ ہفتے ترک صدر اردگان اور فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کی ملاقات پر امریکی دفتر خارجہ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ’’ امریکہ کو صدر اردگان کی جانب سے حماس کے دو لیڈروں کی میزبانی کرنے پر شدید اعتراض ہے، اس طرح کے رابطے ترکی کو تنہا اور دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ طیب اردگان حماس سے رابطے میں ہیں ۔ ان کی پہلی ملاقات یکم فروری کو منظر عام پر آئی تھی، امریکہ ۲۲؍ اگست کو حماس قیادت کی استنبول آمد پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے۔