بدر الحسن القاسمی( کویت)
محض معلومات کی کثرت انسان کو عالم نہیں بنا دیتی، اس وقت معلومات کی دنیا میں کمی نہیں ہے بلکہ معلو مات کی کثرت آج کی دنیا کیلئے ایک مستقل فتنہ ھے معلومات کی دنیا کا انقلاب سوشل میڈیا کی فتنہ سامانی اور غیرضروری وغیر مفید معلومات کی کثرت اور فراوانی نےلوگوں کا ذہنی سکون چھین لیا ہے اور اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا معجزہ اور زبان نبوت کا فیض ہے کہ آپ نے نہ صرف یہ کہ علم نافع اور غیر نافع کے درمیان فرق کی نشاندھی کی ھے بلکہ علم غیر نافع سے پناہ مانگنے کی تلقین بھی کی ھے جس طرح کہ مردہ اور خشوع سے عاری دل سے پناہ مانگی ہے
اللہم انی اعوذ بک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع
آپ کی سکھلائی ہوئی اہم ترین دعاؤں میں سے ہے
علم کے میدان میں کمال کا دعویٰ کرنے والے اس وقت بہت ہیں جو میڈیا کے ذریعہ اپنے کو بڑے القاب سے متعارف کرانے میں مشغول ہیں لیکن حقیقی علماء کے اوصاف سے وہ کوسوں دور ھیں انکی وجہ سے دینی کاموں کا وقار بھی مجروح ہو رہا ہے اور اصلاح کا عمل بے اثر ہوکر رہ گیا ہے۔
علمائے دین کی خاص شان ہے اور اللہ تعالی کے یہاں ان کا بہت بلند مقام ہے لیکن یہ مقام علمائے ربانیین کا ہے ۔
ربانی وہ عالم کہلاتا جو علمی بصیرت کے ساتھ اخلاص کی دولت سے بہرہ ور اور فنی مہارت کے ساتھ حسن اخلاق کے جوہر سے آراستہ ہو،
اس کا اٹھنا بیٹھنا اس کا چلنا پھرنا سب اللہ کی رضا کیلئے ہو، اس کا علمی مشغلہ محض ذہنی عیاشی اور لوگوں میں نام کمانے کےلیے نہ ہو۔
موجودہ ماحول میں مولانا محمد قاسم مظفر پوری صاحب کی شخصیت امتیازی شان کی حامل تھی، ان کا شمار علمائے ربانیین میں ہوتا تھا ۔
– وہ زبردست عالم اور فقيہ تھے
– وہ شہرت پسندی سے بہت دور تھے
– وہ علم کے ساتھ عمل کے زیور سے آراستہ تھے
– ان کا عمل انکے علم پر غالب تھا
وہ نوجوان علماء کی شخصیت کی تعمیر کا بے پناہ جذبہ رکھتے تھے
– وہ تعلیم میں تدریج کے ساتھ شخصیت سازی پر زور دیتے تھے
عالم ربانی کی یھی خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ
الربانی الذی یربی الناس بصغار العلم قبل کبارہ ( بخاری)
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ” کونوا ربانیین” کونوا حلماء فقھاء
مولانا محمد قاسم مظفر پوری صاحب نے اپنے زندگی کا بڑا حصہ درس تدریس قضاء اور اجتماعی مصالحت کے میدانوں میں گزارا ہے اور خاموشی کے ساتھ اس میدان میں اہم خد مات انجام دی ہیں اورایک عالم باعمل کا مثالی کردار پیش کیا ہے مولانا قاضی محمد قاسم مظفرپوری صاحب کی پیدائشی ۱۹۳۷ کی تھی ، انھوں نے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں تعلیم حاصل کی اور تکمیل دار العلوم دیوبند میں کی ، ان کے نامور اساتذہ میں مولانا عبد الر حیم صاحبؒ ، مولانا عبد الحفیظ در بھنگویؒ ، مولانا ریاض احمد چمپارنیؒ ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ، علامہ ابراہیم بلیاویؒ ، مولانا مولانا اعزاز علی امروہویؒ ، شیخ الحدیث مولانا فخر الدین احمد مراد آبادیؒ وغیرہ رہے ہیں۔
فراغت کے بعد تدریس قضاء اور عوامی اصلاح و دعوت کے کام کو انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنالیا اور پورے اخلاص کے ساتھ اسے انجام دیتے رہے اور امارت شرعیہ کی طرف سے قاضی کے منصب پر فائز رہے ۔
انھوں نے متعدد کتابیں بھی تصنیف کی ہیں، جن میں اہم ترین کتاب مولانا عبداللہ بھلوی کی عربی کتاب ( ادلة الحنفية) کی دوسری اور تیسری جلدوں کی تکمیل ہے۔ دوسری جلد پر میں نے مختصر عربی مقدمہ بھی لکھا تھا جس کے بارے میں مولانا نے خاص پسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے،
پوری کتاب ان کے برادر زادہ مولانا رحمت اللہ صاحب کی تحقیق و تعلیق کیساتھ بیروت سے چھپ چکی ہے۔
ان کے اور بھی متعدد تعلیمی کتابچے و اصلاحی رسائل ہیں جو مقبول و متداول ہیں اور جو اجتماعی اصلاح کے جذبہ سے لکھے گئے ہیں، مولانا نے اپنے برادر زادہ مولانا رحمت اللہ صاحب کی تعلیم و تربیت اور علمی ترقی پر اس طرح توجہ دی ہے کہ ان کو بھی مولانا کی ایک تصنیف اور زندہ یادگار قرار دیا جا سکتا ہے ۔
مولانا اپنی خاموش و کم آ میز طبیعت سادہ مزاجی اور شہرت و ناموری سے بے نیاز وضع قطع اور لباس کے باوجود اپنا ایک خاص علمی وزن رکھتے تھے اور مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ صاحب کے بعد امارت شرعیہ ، فقہ اکیڈمی اور متعدد دوسرے دینی وعلمی اور اصلاحی اداروں کیلئے علمی وقار اور اعتماد کا نشان بن گئے تھے اور کسی اجلاس میں ان کے صرف موجود ہونے اور خاموش بیٹھے رہنے کو بھی فائدہ مند اور برکت و روحانیت کا وسیلہ اور کامیابی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی انھیں فردوس بریں میں جگہ دے اور امت کو رشد و ہدایت کے مینار علمائے ربانیین سے محروم نہ کرے ۔
این دعاء ازمن واز جملہ جہاں آمین باد






