خطے میں غنڈہ گردی کرنے والے ممالک جس طرح آئے، الٹے قدموں واپس بھی جائیں گئے: ترکی وزیر دفاع

وزیر دفاع  خلوصی آقار نے مشرقی بحیرہ روم کی  صورت حال سے متعلق کہا ہے کہ  ہزاروں کلومیٹر دور سے اس علاقے میں آکر غنڈہ گردی کرنے ،اپنا حق جتانے اور محافظ کا ڈھونگ رچانے میں مصروف بعض ممالک ہیں جو جس طرح آئے اسی طرح واپس بھی چلے جائیں گے

 وزیر دفاع  خلوصی آقار نے مشرقی بحیرہ روم کی  صورت حال سے متعلق کہا ہے کہ  ہزاروں کلومیٹر دور سے اس علاقے میں آکر غنڈہ گردی کرنے ، اپنا حق جتانے اور محافظ کا ڈھونگ رچانے میں مصروف بعض ممالک ہیں جو جس طرح آئے اسی طرح واپس بھی چلے جائیں گے۔
وزیر دفاع نے  چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل یشار گولیر  اورت دیگر  اعلی فوجی افسران کے ہمراہ مشترکہ فضائی آپریشن مرکز  کا دورہ کیا  جنہیں وہاں  تمام عسکری کاروائیوں اور نگرانیوں کی تفصیلات  دی گئیں۔
اس موقع پر وزیر دفاع نے مشرقی بحیرہ ،ایجیئن  اور جزیرہ قبرص  کی صورت حال سے متعلق تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ  ترکی اپنے تمام ہمسایہ ممالک کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے لیکن یہ بھِ باور ہرہے کہ ہم اپنے جائز حقوق کا دفاع کرنا  جانتے ہیں اور انہیں دوسروں کے پاوں تلے روندنے کی اجازت کسی کو نہیں  دے سکتے، در حقیقت  ہزاروں کلومیٹر دور سے اس علاقے میں آکر ہم پر دھونس جمانے،اپنا حق جتانے اور محفاظ بننے کا  ڈھونگ کرنے والے بعض ممالک موجود ہیں  جن کی موجودگی  ہمیں قبول نہیں  لہذا جیسے آئے ہیں ویسے ہی  الٹے قدموں واپس بھی جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ترکی  نے تمام عالمی قوانین ، سمدری حقوق ،عدالتی فیصلوں  اور بہتر ہمسائیگی کے تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے حرکت کی ہے لیکن  اس وقت یونان  اپنی پشت پر فرانس  اور یورپی یونین کا خول چڑھائے اپنی من مانی کر رہا ہے جو کہ ایک غلط روش ہے، اگر یونان دو جمع دو پانچ کہنے پر مصر ہے  تو یہ عام فہم میں ممکن نہیں کیونکہ حققیقت اس  کے بر عکس ہے۔  قبرص ہمارا قومی مسئلہ ہے اور ہم اس کے حقوق کا تحفظ ماضی کی طرح اب بھی کریں گے۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ  یونان نے سولہ جزائر کو لوزان معاہدے کے خلاف اسلحے سے بھر دیا ہے جو کہ تمام قوانین کی خلاف ورزی ہے لیکن ہم تاحال اس سے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں اور ہمیں دیگر دوست اور اتحادی ممالک سے بھی امید ہے کہ وہ اس معاملے میں مثبت رویہ اپنائیں گے اگر جنوبی قبرص پر اسلحے کی پابندی نرم کی جائے گی اور خطے کا توازن بگاڑنے کا سبب بنا جائے گا تو میرے خیال میں یہ پر امن تصفیئے کا غماز نہیں ہوگا۔