اس پورے فیصلے میں جہاں مکمل مساوات ہے وہیں تعجیل قابل ستائش ہے ،گرفتار کئے جانے سے سزانافذ کئے جانے کا مرحلہ صرف پانچ سالوں پر مشتمل ہے جبکہ دنیا کی عدالتوں میں مظلوم کو انصاف ملنے میں کئی دہائی کا عرصہ گزرجاتاہے ،بطور خاص ہندوستان کا عدالتی نظام اس معاملے میں سب سے زیادہ سست روی کا شکار ہے ،یہاں انصاف کیلئے سالہا سال درکارہوتے ہیں،عدالتوں کا چکر لگالگاتے کتنے لوگ خود اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں،کبھی داد کے دائر کئے ہوامقدمہ کا تصفیہ پوتاکے بڑھاپے میں ہوتاہے،لاکھوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں،مہنگے ترین وکلاء کی خدمات لینی پڑتی ہے تب بھی حصول انصاف کی امید دھندلی سی رہتی ہے ،کہاجاتاہے کہ ہندوستان میں حصول انصاف کیلئے عمر نوح، صبر ایوب اور دولت قارون چاہئے ۔اس پورے واقعہ سے مکمل عدل ومساوات،عدلیہ کی خودمختاری ،شہریوں کے ساتھ برابری اور مظلومین کو جلد انصاف دیئے جانے کا عظیم سبق ملتاہے جس کا نفاذ دنیا کے ہرخطے میں ہونا چاہئے
پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
دسمبر 2012 کی بات ہے ،عیش وعشرت اور نازونعم میں پلا سعودی شہزادہ ترکی الکبیر اپنے دوست عادل المحیمد کے ساتھ ریاض کے اطراف میں واقع سیاحتی مقام الثمامہ میں تفریح کیلئے جاتاہے ،اس مقام پر پہونچتے ہی ایک خوفناک منظر نظر آتاہے ،اسلحہ سے لیس چندنوجوانون آپس میں لڑرہے ہوتے ہیں ،صورت حال کا جائزہ لینے کیلئے عادل بن سلیمان المحیمد اپنی گاڑی سے اتر کر لڑائی کے مقام کی جانب جاتاہے ،اسی دوران اندھا دھند فائرنگ شروع ہوجاتی ہے ،شہزادہ ترکی الکبیر بھی اپنے پسٹول سے فائرنگ شروع کردیتاہے ،ایک گولی عادل المحمید کو جالگتی ہے اور پھر اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرجاتی ہے ،پولس جائے ورادات پر پہونچتی ہے اور شہزادہ سمیت وہاں موجود تمام کو گرفتار کرلیتی ہے ،پولیس تحقیق میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ عادل کی موت شہزادہ کی فائرنگ سے ہوئی ہے ،یہ خبر خود شہزاد ہ کیلئے بھی صدمہ کا سبب بنتی ہے ،معاملہ عمومی عدالت میں پہونچتاہے اورصرف تین سال کی مدت میں مکمل تحقیق وتفتیش کے بعد شہزادہ کو عادل المحیمد کے قتل کا مجرم قراردیکر قصاص کی سزا سنائی جاتی ہے۔اپیل عدالت اور عدالت عظمی میں بھی یہی فیصلہ برقراررکھاجاتاہے اور پوراشاہی خاندان بغیر چوں چراکہ نہ صرف عدالت کے اس فیصلے کو تسلیم کرتاہے بلکہ سزا پر در آمد کیلئے شاہی حکم نامہ بھی جاری کیا جاتاہے، سعوی فرماں رواشاہ سلمان شہریوں کے نام ایک فرمان جاری کرتے ہیں ’’جو کوئی بھی بے گناہ لوگوں پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرے گا اور ان کا خون بہائے گا تو وہ قانونی سزا سے نہیں بچ سکے گا‘‘
دوسری طرف شہزاد ہ کے اقربا ء نے قصاص میں قتل کئے جانے سے بچنے کیلئے مقتول نوجوان عادل المحمیدکے اقرباکی دہلیز پر دستک دی ،مقتول کے لواحقین کو منہ مانگی دیت دینے کی پیشکش کی، ریاض کے گورنر امیر فیصل بن بندر بن عبدالعزیز نے بھی مقتول کے لواحقین سے سفارش کی ، لیکن مقتول کے والد قصاص پر قائم رہے،بالآخر 18اکتوبر 2016 کو شام 4 بج کر 13 منٹ پرالصفہ مسجد کے مرکزی چوک پر مقتول عادل کے والد کے سامنے شہزادہ ترکی الکبیر کا سر قلم کردیاگیا اور شاہی خاندان کے افراد ،ارباب اقتدار نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا۔
شاہی خاندان کا یہ دوسرا فرد ہے جسے قصاص میں قتل گیا گیا ہے ،قبل ازیں ستر کے عشرے میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز کو شہید کرنے والے ان کے سگے بھتیجے کو تہ تیغ کیا گیا تھا،حالیہ واقعہ کی پہلے سے زیادہ اہمیت ہے کیوں کہ یہاں ایک عام شہری کے ناحق قتل میں شاہی خاندان اور شاہ سلمان کے انتہائی قریب فرد کا قصاص میں سرقلم کیا گیا ہے ،اس انصاف کے قیام پر سعودی عرب کے تمام شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والوں نے مرکزی اور سوشل میڈیا پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ یہ مملکت میں قانون کی حکمرانی کی زندہ مثال ہے ایک شہری کے لیے اس سے بڑھ کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی کہ اس کے ساتھ شاہی خاندان جیسا ہی سلوک کیا ، اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ سعودی عرب میں قانون سب کے لیے برابر ہے،ٹویٹر پر صارفین خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ایک ویڈیو کی بھی گشت کررہی ہے جس میں انھیں یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ’’کوئی بھی شخص ان کے خلاف ،ولی عہد یا شاہی خاندان کے کسی دوسرے فرد کے خلاف قانونی درخواست دائر کرسکتا ہے‘‘
سعودی عرب کا یہ واقعہ پوری دنیا کی عدالت اور حکومت کیلئے نمونہ،مشعل راہ اور عظیم الشان مثال ہے ،جرائم کے خاتمہ،امن وسلامتی کے قیام ،اور شہریوں کو مساوات کا یقین دلانے کیلئے اس بڑی کوئی اورچیز نہیں ہوسکتی ہے،یہاں مکمل انصاف بھی ہے اور مظلوم کو انصاف دینے میں تعجیل بھی ہے ،اسلامی تعلیم کی وہ پوری جھلک نظر آتی ہے جس میں کہاگیا ہے شاہ وگدا ،امیر وغریب ،عربی وعجمی سبھی قانون کی نظر میں یکساں ہیں،رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آئے اس واقعہ کی یاد بھی تازہ ہوجاتی ہے جس میں خاندان قریش کی ایک معززخاتون پر چوری کاالزام تھا، مقدمہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ نے ہاتھ کاٹنے کی سزا تجویزکی، خاندان کے لوگوں نے حضرات اسامہ بن زیدسے سفارش کرنے کی درخواست کی ،نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ خبر سن کر غضبناک ہوگئے اور فرمایا کیا تم اللہ کے بیان کردہ حدود میں مجھ سے سفارش کرتے ہو؟ پھر منبر پر کھڑے ہوکر آپ نے فرمایا: تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ ان میں اگر کوئی معزز چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی کمزور چوری میں پکڑا جاتا اس کو سزادی جاتی۔ خدا کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا،اور اس خاتون پر حدنافذ کی گئی۔
یہاں بھی وہی معاملہ ہے عدالت شاہی خاندان کے ایک فرد کے خلاف فیصلہ سناتی ہے اور حکومت بسروچشم اسے قبول کرتی ہے ،شریعت میں دیئے گئے حق کا استعمال کرتے ہوئے شہزادہ کو قتل ہونے سے بچانے کیلئے مقتول کے ورثاء کو لاکھوں ریال دیت میں دیئے جانے کی پیش کش کی جاتی ہے لیکن مقتول کا باپ سلیمان اسے قبول کرنے سے انکارکرتاہے ،بادشاہ وقت سے وہ قصاص کے نفاذ کا مطالبہ کرتاہے اور بادشاہ ورثاء پر کوئی دباؤ بنائے بغیر قصاص کو نافذ کرتاہے۔جبکہ ہندوستان سمیت دنیا کی عدالتوں میں مالداری اور غریبی کی بناپر تفریق کی جاتی ہے ،شہرت اور عہدہ کے مطابق عدالتوں سے فیصلے سنائے جاتے ہیں ،کبھی کسی کو سزا ہوجاتی ہے تو جیل سے رہاکرانے کیلئے دوسرے اسباب اختیا رکئے جاتے ہیں،وزیر اعظم ،صدر اور وزیر سے لیکر ایم پی اور ممبر اسمبلی تک کے معاملوں میں امتیاز برتاجاتاہے،پولس اسٹینشوں میں ان کے خلاف ایف آئی آر تک قبول نہیں کی جاتی ہے ،نہ ہی عام شہریوں کو اتنی جرات ہوپاتی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی رہنما کے خلاف کوئی مقدمہ دائر کرنے کی ہمت کرسکے ،اگر کبھی عدالت سے جیل جانے کی سزا سنائی بھی جاتی ہے تو اگلے پل ان کی رہائی کا پروانہ صادرہوجاتاہے ،جیل جانے کی بھی نوبت نہیں آپاتی ہے ،سیاسی رہنما ،شوبز اور مالدار کیلئے ڈکشنری میں قانون،جرم اور سزا جیسے الفاظ ہی نہیں ہیں اور نہ ہی جرائم کے ارتکاب کے وقت انہیں کسی قانی گرفت کا خوف ہوتاہے،یہی وجہ ہے کہ کرائم کا گراف ان ملکوں میں نہ کہ برابر ہے جہاں اسلامی قوانین کا نفاذ ہے ۔شاہ فیصل جب ہندوستان آئے تھے تو اس وقت ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈٹ جواہرلال نہرونے ان سے پوچھاکہ اسلامی قانون کا یہ فلسفہ مجھے میں سمجھ میں نہیں آسکا’’جب ایک شخص کسی کو قتل کردیتاہے جو اس کے انتقام میں اسے قتل کیوں کیا جاتاہے جبکہ قاتل کو قتل کرنے سے مقتول کوئی فائدہ نہیں پہونچ سکتاہے ‘‘،شاہ فیصل نے پنڈت نہروسے پوچھاکہ آپ کے یہاں سال میں قتل کے کتنے واقعات پیش آتے ہیں پنڈت نہروں نے جواب دیاکہ یہ اسے شمار نہیں کیا جاسکتاہے ،شاہ فیصل نے کہاہمارے یہاں سالوں سال میں کبھی ایک دوواقعہ اس طرح کا پیش آجاتاہے ،کیوں کہ قصا ص پور ے معاشرہ کو قتل سے روکتاہے۔
اس پورے فیصلے میں جہاں مکمل مساوات ہے وہیں تعجیل قابل ستائش ہے ،گرفتار کئے جانے سے سزانافذ کئے جانے کا مرحلہ صرف پانچ سالوں پر مشتمل ہے جبکہ دنیا کی عدالتوں میں مظلوم کو انصاف ملنے میں کئی دہائی کا عرصہ گزرجاتاہے ،بطور خاص ہندوستان کا عدالتی نظام اس معاملے میں سب سے زیادہ سست روی کا شکار ہے ،یہاں انصاف کیلئے سالہا سال درکارہوتے ہیں،عدالتوں کا چکر لگالگاتے کتنے لوگ خود اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں،کبھی داد کے دائر کئے ہوامقدمہ کا تصفیہ پوتاکے بڑھاپے میں ہوتاہے،لاکھوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں،مہنگے ترین وکلاء کی خدمات لینی پڑتی ہے تب بھی حصول انصاف کی امید دھندلی سی رہتی ہے ،کہاجاتاہے کہ ہندوستان میں حصول انصاف کیلئے عمر نوح، صبر ایوب اور دولت قارون چاہئے ۔اس پورے واقعہ سے مکمل عدل ومساوات،عدلیہ کی خودمختاری ،شہریوں کے ساتھ برابری اور مظلومین کو جلد انصاف دیئے جانے کا عظیم سبق ملتاہے جس کا نفاذ دنیا کے ہرخطے میں ہونا چاہئے ۔(ملت ٹائمز)
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com