یکساں سول کوڈ، طلاق ثلاثہ اور تعدد ازواج :حقائق اور افسانے

اگر وزیر اعظم نریندر مودی حقیقت میں مسلمان عورتوں کو ہندوستان میں خود کفیل بنانا چاہتے ہیں جیسا کہ انھوں نے لکھنؤ کی اپنی حالیہ تقریر میں دعوی کیا ہے ، تو انھیں تین قابل عمل حکمت عملیوں پر دھیان دینا چاہیے(الف)وہ بہادری کے ساتھ مسلمان عورتوں کو روزگار اور تعلیم میں مناسب رزرویشن دیں، اس طرح سے یہ عورتیں رفتہ رفتہ خود کفیل ہو جائیں گی،(ب) وہ منشیات کے غلط استعمال پر پابندی عائد کر سکتے ہیں جس نے مسلم خواتین سمیت تمام عورتوں کو مظالم کا شکار بنا رکھا ہے ، (د)وہ فوری طور پر فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے ایک قانون بنا سکتے ہیں جس کی مسلمان عورتیں وقتاً فوقتاً بری طرح شکار ہو تی رہتی ہیں۔ کیا مودی اور ان کی حکومت ان میں سے کسی ایک پر بھی غور کر ے گی؟

مولانا برہان الدین قاسمی
آئین ہند کی دفعہ 25بنیادی حقوق سے متعلق ہے جس کی عبارت اس طرح ہے : “تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے ، اس کی پیروی کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق ہے ۔”(بھارت کا آئین (یکم جولائی 2013 تک ترمیم شدہ)، ص 52، مطبوعہ این سی پی یو ایل، وزارت ترقی انسانی وسائل) آئین ہند کی دفعہ 44جو کہ ایک ہدایتی اصول(Directive Prinsiple) ہے ، کے الفاظ اس طرح ہیں: “مملکت یہ کوشش کرے گی )کہ( بھارت کے پورے علاقہ میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ کی ضمانت ہو۔” )ایضاً، ص 62) سیدھی سی بات یہ ہے کہ کوئی ڈائریکٹیو پرنسپل ۔ جس کی حیثیت ایک مشورے یا اختیاری کام کی ہے  کسی بھی شہری کے بنیادی حقوق کو ختم نہیں کر سکتا۔ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی لانے کی خارجی کوششوں کو ہمیشہ ہندوستانی مسلمانوں نے بالعموم مذہب اور مذہبی احکام میں دخل اندازی تصور کیا ہے ۔ چنانچہ اس طرح کی تمام کوششیں آئین کے ذریعے دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔
بی جے پی حکومت نے عدالت عظمی میں جو حالیہ حلف نامہ داخل کر کے مسلم پرسنل لا سے طلاق ثلاثہ اور تعدد ازواج کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے وہ یقیناً غیر معقول، غیر ضروری اور ایک انتخابی حربہ ہے ۔ اسی طرح سے لا کمیشن آف انڈیا کی جانب سے جاری کردہ سوال نامہ بھی غیر تسلی بخش اور جانب دارانہ ہے جس کو اقلیتی طبقات اور دلت ایک سازش کا حصہ تصور کرتے ہیں جو یکساں سول کوڈکے پردے میں برہمنی قانون تھوپنے اوراختلافات کا بیج بونے کے لیے رچی جا رہی ہے ۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ۔ کسی بھی خاص مذہب یا اکثری طبقے کے مذہب کو سرکاری مذہب ہونے کی حیثیت نہیں دی گئی ہے ۔ آئین کی دفعہ 29اور 30نے مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا مکمل حق دیا ہے ۔

طلاق ثلاثہ اور مسلم سماج:
حکومت اور کچھ میڈیا والے طلاق ثلاثہ اور تعدد ازواج کے مسئلے کو کچھ اس طرح پیش کر رہے ہیں گویا طلاق ثلاثہ اور تعدد ازواج صرف مسلمانوں کے درمیان عام ہے ، جب کہ حقائق بالکل دوسری کہانی سناتے ہیں۔ مردم شماری 2011کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کی جملہ مطلقہ عورتوں میں 68فیصد عورتیں ہندو ہیں، جب کہ مسلم مطلقہ عورتوں کی تعداد صرف23.33 فیصد ہے ۔ مردم شماری 2011سے مزید معلوم ہوتا ہے کہ 1000میں سے5.5 ہندو جوڑے علاحدگی اخیتار کر لیتے ہیں، اس میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں جنھیں ان کے شوہروں نے معلق کر رکھا ہے ۔ اس فہرست میں ایک نام حالیہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی اہلیہ محترمہ جسودا بین کا بھی ہے ۔ چنانچہ قانونی طور پر طلاق یافتہ خواتین کی تعداد کے ساتھ علاحدگی کا شکار1.8خواتین کو بھی جوڑ لیا جائے تو ہندؤوں کے درمیان ایسی عورتوں کی تعداد 1000میں 8.3 ہوجاتی ہے ۔ اس حقیقت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہندؤوں کے درمیان طلاق یا علاحدگی کی شرح مسلمانوں کے درمیان طلاق کی شرح سے بہت زیادہ ہے ، جو کہ مردم شماری 2011کے مطابق 1000میں صرف 5.63 ہے ، جب کہ مسلمانوں کے درمیان علاحدگی یا معلق چھوڑنے کے معاملات خال خال ہی ملتے ہیں، کیوں کہ ان کے یہاں طلاق یا بدنام زمانہ طلاق ثلاثہ کی شکل میں زوجین میں علاحدگی کا ایک آسان طریقہ موجود ہے ۔ لیکن بدقسمی یہ ہے کہ ہندوستانی میڈیا اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے جنون میں معاملات کو سنگین بنانے کے لیے افسانوں کے پیچھے بھاگنے کا عادی ہے اور اس طرح کی چیزوں کو “جہادیوں کا اسلام” بنام “حقیقی اسلام” کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں طلاق ثلاثہ ایک مجلس میں ممنوع اور لائق مذمت ہے ۔ اسلام نہ تو طلاق ثلاثہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور نہ ہی تعدد ازدواج کو ضروری قرار دیتا ہے اور یہ اعمال مسلمانوں میں عام بھی نہیں ہیں۔ سروے کے مطابق بہت کم افراد ہی طلاق ثلاثہ کی راہ اپناتے ہیں اور وہ بھی جہالت کی وجہ سے ۔ مگر اس کے باوجود اگر کوئی تین طلاق دیتا ہے یا کسی کا تین طلاق دینا ثابت ہوجاتا ہے تو یہ بحیثیت میاں بیوی اس جوڑے کی زندگی پر ضرور اثر انداز ہوگا۔ کچھ خوش فہم آزاد خیال نام نہاد مسلمان جن کا تعلق اسلام سے سوائے ان کے عربی یا اسلامی ناموں کے کچھ نہیں ہے  بڑی قوت کے ساتھ یہ مغالطہ پھیلا رہے ہیں کہ طلاق ثلاثہ جیسی کوئی چیز اسلام میں سرے سے ہے ہی نہیں ، بلکہ ملاؤں کی اپنی ایجاد ہے ۔ لیکن ہمارے سامنے قرآن پاک کی آیت موجود ہے جس میں کہا گیا ہے :
“طلاق دو ہیں۔(اس کے بعد شوہر کے لیے دو ہی راستے ہیں) یا تو قاعدے کے مطابق بیوی کو روک رکھے (یعنی رجوع کر لے) یا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے ۔”(سورہ بقرہ:229)
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دو طلاق تک شوہر کو اختیار ہے کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے یا اس کے عدت کی تکمیل تک چھوڑے رکھے اور اس کے بعد خوس اسلوبی کے ساتھ اسے آزاد کر دے ۔ آیت کے اخیر تک قرآن نے عورتوں کے حقوق کی تکمیل کے سلسلے میں اللہ سے ڈرنے اور رشتے کی ڈور کو مضبوط کرنے کی اہمیت کو بیان کیا ہے ۔ اس کے بعد کی آیت واضح طور پر تیسری طلاق کو بیان کرتی ہے ۔ اس تیسری طلاق کی نوبت اس وقت آتی ہے جب حالات انتہائی سنگین ہو جائیں اور دونوں کا ایک ساتھ جینا محال ہو۔ قرآن کہتا ہے :
“پھر اگر شوہر نے تیسری طلاق دے دی تو وہ مطلقہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کر لے ۔ اگر شوہر ثانی اسے طلاق دے دیتا ہے (یا انتقال کر جاتا ہے) تو اس عورت اور اس کے پہلے شوہر کے لیے ایک دوسرے سے رجوع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کے ذریعہ (قائم کردہ) حدود کو باقی رکھ سکیں گے ۔ یہ اللہ کے حدود ہیں جو وہ جاننے والوں پر واضح کرتا ہے ۔” (سورہ بقرہ:230)
میں نے اپنے ایک سابقہ مضمون “طلاق طلاق طلاق: ایک نافذ العمل جرم” میں تفصیل کے ساتھ یہ بات واضح کی ہے کہ تین طلاق کس طرح نبی کرم ﷺکے زمانے سے ہی نافذ سمجھی جاتی رہی ہے ۔ گو کہ نبی ﷺنے اپنے کچھ اصحاب کے ذریعے طلاق کے غلط استعمال اور اسلام کی روح کی پیروی نہ کیے جانے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار فرمایا، تاہم انھوں نے ایک سے زائد مواقع پر ایک مجلس کی تین طلاق کے بعد میاں بیوی کے درمیان علاحدگی کا فیصلہ فرمایا۔ خلیفۂ اول ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسی پر عمل ہوتا رہا۔ بعد ازاں خلیفۂ دوم عمر رضی اللہ عنہ نے اگر چہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے پر سزا عائد کی،تاہم انھوں نے اس طرح کی طلاق کو نافذ ضرور قرار دیا۔ اسی طرح سے زمانۂ مابعد کے خلفاء، ائمہ، محدثین، فقہاء، مذاہب اربعہ  حنفی، شافعی، مالکی اور جنبلی  کا آج تک یہی مذہب رہا ہے ۔
جو لوگ خالی ڈھول کی طرح فضا میں باطل کا راگ الاپتے رہتے ہیں وہ یقیناً فتنہ پرور ہیں، جو اسلامی علوم اور اس کے دیوانی و فوجداری قوانین سے سے یکسر نا بلد ہیں۔ ایسے افراد عالمی پیمانے پر کچھ میڈا ہاؤسس کے لیے آلۂ کار کا کام ضرور کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلم عوام نے ہمیشہ ان کو مسترد کیا ہے ۔ یہاں اس بات کو واضح کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بلند آہنگ ٹی وی میزبان اور جنونی “بھکت” بشمول وزارت قانون کے یہ بات بڑی زور و شور سے کہتے آرہے ہیں کہ بہت سے مسلم ممالک نے طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کر رکھی ہے ۔ یہ ایک دوسرا جھوٹ اور فریب ہے ۔ طلاق ثلاثہ پر مسلمان، خواہ بحیثیت جماعت ہو یا بحیثیت ا فراد، پابندی عائد کر ہی نہیں سکتے ۔ مسلم علماء کے درمیان صرف اختلاف اس بات کا ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی گردانی جائیں گی یا فقظ ایک ۔ کچھ مسلم ممالک میں چند شرائط کے ساتھ تین طلاق کو صرف ایک طلاق تصور کیا گیا ہے ، جب کہ زیادہ تر ممالک نے اس کے استعمال کو غیر قانونی تصور کیا ہے ، لیکن اس کو نافذ ضرور مانا ہے ۔ سعودی عرب کے آئین کے الفاط اس طرح ہیں: “طلاق ثلاثہ غیر قانونی، لیکن نافذ ہے ۔”
سعودی عرب کی ہیۂ کبار العلماء کے ایک پروگرام میں اس مسئلے کو پیش کیا گیا اور مکمل غور و فکر کے بعد انھوں نے یہ فیصلہ کیاکہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے قرآن و حدیث کی روشنی میں تین طلاقیں واقع ہوں گی۔
[http://islamtoday۔۔۔net/bluetooth/artshow۔32۔6230۔۔۔htm]
پاکستانی آئیں کے الفاظ یہ ہیں: تین طلاقیں دینا حتمی اور نافذ ہیں یہاں تک کہ دوسری شادی کر لی جائے ۔
[Law of Divorce and Khula in Pakistan, page: 8: by Barrister Ali Shaikh]
تاہم دوسرے ممالک کے مسلمان خواہ وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں کس طرح سے اسلام پر عمل کر رہے ہیں یہ بات ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ہندوستانی مسلمان اور ان کے علماء معتدل اسلام پر عمل کرنے کے حوالے سے پوری دنیا میں مشعل بردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ ہندوستانی علماء صدیوں تک بیشتر ممالک کے لیے مستند مرجع کی حیثیت کے حامل رہ چکے ہیں۔ انھوں نے اپنے پیچھے اسلامیات پر تصانیف کا ایک عظیم ذخیرہ چھوڑا ہے جس سے دنیا آج تک استفادہ کر رہی ہے ۔ چنانچہ شرعی حدود کے اندر ان کی آج بھی وہی آزاد حیثیت رہنی چاہیے جس کے حامل وہ ماضی میں رہ چکے ہیں۔ طلاق ثلاثہ یقیناًقانون کا المناک استعمال ہے ۔ کچھ مسلمان مرد اس قانونی نظام کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ انھیں اس کے لیے جوابدہ بنانا چاہیے اور غلط استعمال کے سد باب کے لیے انہیں سزا بھی دی جانی چاہیے ۔ اسی طرح سے جو لوگ عورتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی سے پیش آتے ہیں یا طلاق دیے بغیر اپنی بیوی سے علاحدگی اختیار کر لیتے ہیں اور نتیجے کے طور پر انھیں پوری زندگی ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں، ایسے افراد کے لیے بھی کوئی سزا تجویز کی جانی چاہیے ۔ مگر طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کرنا یا مسلم پرسنل لا میں تبدیلی لانا مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ مردوں کو عورتوں کے حقوق اور ان کے احترام کے سلسلے میں حساس بنانامسئلے کا سب سے بہترین حل ہے ۔
اسلام تعدد ازدواج کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا
اسلام سخت شرائط کے ساتھ تعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے ، جن کا پورا کرنا انتہائی دشوار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر ہند کے مسلم معاشرے میں تعدد ازواج کا رواج عام نہیں ہے ۔ گنے چنے لوگ ہی ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں۔ بسااوقات یہ کام پہلی بیوی کی خواہش پر یا کم از کم باہمی رضا مندی سے بھی ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ ایک سے زائد شادی ضرورت کی وجہ سے کرتے ہیں، جیسے کہ پہلی بیوی کسی دائمی مرض میں مبتلا ہو یا کسی کو اولاد یا اولاد نرینہ کی خواہش ہو، جب کہ کچھ لوگ غلط مقصد سے بھی متعدد شادیاں کرتے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد انتہائی کم ہے ۔ اگر کچھ دوسری عورتوں سے شادی کرنے کے بعد پہلی بیوی پر ظلم کرتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی جرم گردانا جائے گا، اس کے لیے قانون کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن لوگوں کو آئینی طور پر ایک سے زائد شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے وہ تعدد ازدواج کے سلسلے میں مسلمانوں سے کہیں آگے ہیں۔ کتنے ہندوستانی تعدد ازدواج میں مبتلا ہیں؟ اس سلسلے میں آج حتمی اعداد و شمار کا ملنا مشکل ہے ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مردم شماری 1961کے بعد سے مذہب یا کمیونٹی کے لحاظ سے شادی کے معاملات پر غور نہیں کیا گیا ہے ۔تا ہم موجودہ سروے سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ تعدد ازدواج کا رواج سب سے کم مسلمانوں میں ہے ۔ پورے مسلم سماج کا زیادہ سے زیادہ 5.7 حصہ تعدد ازدواج کے قانون پر عمل کرتا ہے ۔ ہندؤوں کے درمیان تعدد ازدواج کے واقعات کی شرح اس سے زائد یعنی5.8 ہے ، اگرچہ دوسرے طبقات جیسے بودھ اور جین مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان اس کا تناسب اور بھی زیادہ ہے ۔7.9 فیصد بدھسٹ اور6.7 فیصد جین ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں۔ اور سب سے آگے قبائلی ہیں جن میں15.52 فیصد لوگ ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ آئین ہند کی دفعہ 25سکھ ازم، جین ازم اور بدھ ازم کو ہندو مذہب کا ہی حصہ تصور کرتی ہے ، اگر چہ یہ مذاہب آئینی طور پر اپنی مستقل شناخت کے لیے مطالبہ کر رہے ہیں۔ آئین ہند کی دفعہ 25کے فقرہ (2) کے ذیلی فقرہ(ب) کی تشریح دوم ملاحظہ فرمائیں: “تشریح 2۔فقرہ (2) کے ذیلی فقرہ (ب) کی تشریح میں ہندوؤں کے حوالے کی یہ تعبیر کی جائے گی کہ اس میں سکھ، جین اوربدھ مذہب کے پیروکار شامل ہیں ۔” چنانچہ اگر آپ آئین کے ذریعہ کی گئی ہندو مت کی تعریف کو سامنے رکھ کر غور کریں تو ہندؤوں میں تعدد ازدواج کا تناسب بڑھ کر20.4 ہوجاتا ہے ، جس میں سکھ شامل نہیں ہیں، کیونکہ ہمارے پاس ان کے تعلق سے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ اب اہم نکتہ یہ کھل کر سامنے آتا ہے کہ مردم شماری 1961کے اعداد و شمار کے مطابق5.7 فیصد مسلمان اور20.4 فیصد ہندو ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں۔ برخلاف حکومت ہند اور کچھ تانیثی تحریک کے علمبرداروں کے دعوے کے کہ تعدد ازدواج ایک غیر اسلامی عمل ہے اور قرآن اس کی اجازت نہیں دیتا، قرآن پاک کی ایک آیت کا ترجمہ پیش ہے :
” اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت(کافی ہے)۔” (سورہ نساء:3)
خلاصہ یہ کہ تعدد ازدواج ایک مشروط آپشن ہے ، تاہم اسلام نے اس کی اجازت دی ہے ۔ مالیگا ؤں مہاراشٹر میں امید ڈاٹ کام کے صحافیوں کی ایک جماعت نے مسلمانوں کے درمیان تعدد ازدواج کے واقعات کے تعلق سے حقیقی اعداد و شمار معلوم کرنے کے لیے زمینی سطح پر ایک سروے کیا۔مالیگاؤں شہر میں مسلمان اکثریت میں ہیں، جس کی کل ۷ لاکھ آبادی کا ۸۷۔۔۔۵۹ فیصد مسلمان ہے ۔ مذکورہ سروے کی رپورٹ کچھ اس طرح ہے :
“مودی سرکار اور کچھ خواتین کارکنان کے ذریعے تعدد ازدواج پر پابندی کے مطالبے کی عرضی دائر کیے جانے کے بعد اس موضوع پر گرما گرم بحث کے دوران امید ڈاٹ کام نے ایک فوری سروے کیا جس کے مطابق پورے شہر میں جہاں مسلمان کثیر تعداد میں آباد ہیں صرف دو مرد ایسے ملے جن کے پاس تین بیویاں ہیں۔” رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے : “پورے مالے گاؤں شہر میں جہاں ۵ لاکھ مسلمان آباد ہیں، صرف ۱۵۱ مردوں کے پاس ۲ بیویاں ہیں، جب کہ کسی کے پاس بھی ۴ بیویاں نہیں ہیں۔” [http://ummid۔۔۔com/news/2016/October/17۔۔۔10۔۔۔2016/ummid۔dot۔com۔survey۔on۔polugamy۔malegaon۔۔۔html]
مالے گاؤں میں کیے گئے حالیہ سروے اور مردم شماری 1961کے اعداد و شمار سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ تعدد ازدواج پر پابندی لگانے سے کوئی فرق پیدا نہیں ہوگا، اور اس سے تعدد ازواج کا رواج نہ تو ختم ہوگا اور نہ ہی عورتوں پر ظلم کا سلسلہ۔ اس لیے کہ ایک سے زائد بیوی رکھنے والے زیادہ ترمرد ملک میں وہ ہیں جنھیں قانون تعدد ازدواج کی اجازت نہیں دیتا۔
یکساں سول کوڈ ملک میں کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے ؟
تنوع بھارت کی خوبصورتی ہے ۔ آئین ہند تمام شہریوں کے لیے “سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف” کا خواہاں ہے ۔ اس نے مذہبی اور نسلی اقلیات اور سماجی و اقتصادی طور پر پس ماندہ طبقات جیسے درج فہرست برادریاں اور درج فہرست قبائل کے حقوق کے تحفظ کے لیے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔ جس طرح مختلف قسم کے پھولوں سے باغ کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے ، اسی طرح سے مختلف ثقافتوں اور رنگوں کے حامل افراد ہی اس عظیم ملک کی خوبصورتی ہیں۔ یہ ہندوستان کا سب سے بنیادی تصور ہے ۔ ایک ملک ایک قانون کا نظریہ یہاں ممکن نہیں ہے ۔ آدی واسی لوگوں کی اپنی تہذیب اور رسوم و رواج ہیں۔ ایک مرد کے پاس ایک سے زائد بیویاں ہو سکتی ہیں، اسی طرح ایک عورت بھی ایک سے زائد شوہر رکھ سکتی ہے ۔ ان کے یہاں شادی کے مختلف طریقے ہیں اور میت کی تدفین کے لیے مختلف رسوم۔ ہندؤوں کی ایک بڑی تعداد مختلف مقامات پر مختلف مذہبی رسوم پر عمل کرتی ہے ۔ ہندو، مسلم اور دیگر اقلیتوں کے پرسنل قوانین کے تقابلی مطالعے سے معلوم ہوگا کہ ان قوانین میں واضح اختلافات جن میں عقیدہ جاتی تقدس بھی شامل ہے کسی بھی پرسنل لاء میں یکسانیت کی اجازت نہیں دیتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ خود ہندو قانون کا تنوع کچھ اس طرح کا ہے کہ صرف یکساں ہندو قانون کا امکان خارج ہوجاتا ہے ۔
ہندو میرج ایکٹ 1955کے تحت اگر صرف شادی کی بات کی جائے تو ہندو کی تعریف کے ذیل میں آنے والے مختلف افراد کی شادیاں ان کے اپنے اپنے رسوم و رواج کے مطابق انجام دی جائیں گی۔ مثال کے طور پر شمالی ہند میں رائج سپت پدھی طریقۂ ازدواج کے مطابق شادی کا عمل مکمل اور نافذ تصور کیا جاتا ہے یعنی اگر کوئی جوڑا مقدس آگ کے گرد سات چکر لگا لے ، جنھیں “سات پھیرے ” سے تعبیر کیاجاتا ہے تو اسے رشتۂ ازدواج میں بندھنا تصور کیا جاتا ہے ۔دوسری طرف جنوب میں ازدواج کے سویامریا تھائی اور سیرتھی روتھا طریقے رائج ہیں۔ ان طریقوں کے مطابق اگر طرفین کی جانب سے رشتے داروں کے سامنے یہ اعلان کر دیا جائے کہ یہ جوڑا ایک دوسرے سے شادی کر رہا ہے ، یا جوڑا ایک دوسرے کو ہار پہنا دے ، یا ایک دوسرے کی انگلی میں انگوٹھی پہنا دے ، یا اگر دولہا دلہن کی گردن میں تھالی یا منگلیم باندھ دے تو شادی مکمل سمجھی جاتی ہے ۔اسی طرح سے جنوبی ہند میں ایک ہندو اپنی چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد، یہاں تک کہ اپنی بھانجی اور بھتیجی سے شادی کر سکتا ہے ، مگر ملک کے دوسرے حصوں کے ہندو ایسے رشتے داروں سے شادی نہیں کر سکتے ۔نیز یہ کہ ہندو قانون کے تحت شادی کے نافذ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو کم از کم ایک پارٹی کے رسوم و رواج کے مطابق انجام دیا جائے ۔ چنانچہ اگر کوئی جین کسی بدھسٹ سے سکھ مذہب کی رسوم کے مطابق شادی کرے تو اس کو نافذ نہیں سمجھا جائے گا۔ (شکنتلا بنام نیل کنٹھ 1972ماہ ایل آر31، پارس دیوان کے ذریعہ فیملی لا میں درج کردہ)
چنانچہ یہ سوال بالکل فطری ہے کہ آیا ان متنوع قوانین کو یکساں کرنا اور سب کے لیے یکساں یا عام قانون بنانا ممکن اور قابل عمل ہے ، جو تمام طبقات کے لیے قابل قبول ہو؟ ہندوستان کے پاس پہلے سے ہی اسپیشل میرج ایکٹ 1954کی شکل میں ایک اختیاری قانون موجود ہے ۔ اس قانون میں ان لوگوں کے لیے جو کسی مذہبی قانون سے بچنا چاہتے ہیں،  دیکھیے مماثل قوانین جیسے انڈین سکسیشن ایکٹ 1952 شادی سے متعلق تمام امور، جیسے طلاق، نان نفقہ اور وراثت کے لیے ایک بہترین قانونی خاکہ موجود ہے ۔ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کا شوشہ ایک مغالطہ اور سیاسی حربہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ یہ بات قطعاً ناممکن اور غیر معقول ہے کہ تمام پھدکتے ہوئے چوزوں کو ایک چھوٹی سی ٹوکری میں اکٹھا کر دیا جائے ۔ اس لیے موجودہ حکومت لا کمیشن آف انڈیا کے ذریعے عام آدمی کے لیے یہ ہسٹریائی ماحول کیوں پیدا کر رہی اس کے پس پردہ مقاصد کا ادراک کوئی کر پائے یا نہ کر پائے جناب مودی یا وہ لوگ جو ناگپور میں واقع آر ایس ایس کے دفتر میں بیٹھے ہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔
اگر وزیر اعظم نریندر مودی حقیقت میں مسلمان عورتوں کو ہندوستان میں خود کفیل بنانا چاہتے ہیں جیسا کہ انھوں نے لکھنؤ کی اپنی حالیہ تقریر میں دعوی کیا ہے ، تو انھیں تین قابل عمل حکمت عملیوں پر دھیان دینا چاہیے(الف)وہ بہادری کے ساتھ مسلمان عورتوں کو روزگار اور تعلیم میں مناسب رزرویشن دیں، اس طرح سے یہ عورتیں رفتہ رفتہ خود کفیل ہو جائیں گی،(ب) وہ منشیات کے غلط استعمال پر پابندی عائد کر سکتے ہیں جس نے مسلم خواتین سمیت تمام عورتوں کو مظالم کا شکار بنا رکھا ہے ، (د)وہ فوری طور پر فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے ایک قانون بنا سکتے ہیں جس کی مسلمان عورتیں وقتاً فوقتاً بری طرح شکار ہو تی رہتی ہیں۔ کیا مودی اور ان کی حکومت ان میں سے کسی ایک پر بھی غور کر ے گی؟(ملت ٹائمز)
مضمون نگار مر کز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے ڈائر یکٹر اور ایسٹرن کریسنٹ ممبئی کے ایڈیٹر ہیں۔