قاسم سید
حضرت مولانا حسین احمدمدنی ؒ نے ایک بار فرمایا تھا ’’حفاظت اسلام کے نعرت تو بہت بلند کئے جاتے ہیں مگر عملی پہلوئوں سے ہم خود گریزاں رہتے ہیں۔ اسلام کوئی مجسم نہیں جس کی حفاظت کے لیے لائولشکر کی ضرورت ہو۔ آپ اپنے اندر اسلام سمولیجئے آپ بھی محفوظ ہو جائیں گے اور اسلام بھی محفوظ ہوجائے گا۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد نے مسلمانوں کے موقف کی وضاحت میں کہا’’ میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سوبرس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں۔ میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں ۔ اسلام کی تعلیم ،اسلام کی تاریخ ،اسلام کےعلوم وفنون ،اسلا م کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرافرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں ۔ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی کلچرل دائرے میں اپنی خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی اس میں مداخلت کرے۔ ‘‘
مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی نے فارغ التحصیل علما سے خطاب کے دوران انتباہ دیاتھا اگر قوم کو ہمہ وقتہ نمازی نہیں سوفیصد تہجد گزاربنادیاجائے لیکن اس کے سیاسی شعور کو بیدار نہیں کیاگیا اور ملک کے احوال سے واقف نہ کرایا تو ممکن ہے کہ ملک میںآئندہ تہجد تو دور پانچ وقت کی نماز وں پر پابندی عائد کردی جائے ۔ اسی احساس کی ترجمانی کرتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے اشاروں اشاروں میں وارننگ دی کہ
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام،شعائر اسلام اور قوانین شریعت پر سرجیکل اسٹرائک کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ ہندوستانی مسلمان اس وقت جن چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے ان کی داغ بیل تو مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد سے ہی پڑگئی تھی۔ ملت نے اکابرین ملت کی رہنمائی میں حکمت وتدبر کے ساتھ ان کا سامناکیاتھا۔ بجزمخالفت کی موجیں بہت مضطرب رہیں۔ آزمائشوں کے ساحل پر لاکر پٹکتی رہیں لیکن ایمان ویقین کی کشتی طوفان نوح کا مقابلہ کرتی رہی اور بپھرتی موجوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے، یہی نہیں مسلمانوں کا موقف بھی طے کردیاگیا کہ وہ کونسے امور ہیں جن پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور یہ بھی کہ جو خطرات ہیں ان سے آگہی حصول علم دین کی طرح ہی ضروری ولازمی ہے ۔ سیاسی شعور کے بغیر چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
مودی سرکار نے ایک ساتھ اتنے محاذ کھول دیے ہیں کہ ترجیحات طے کرنی مشکل ہوگئی ہیں۔ جان ومال کا ضیاع تو کسی صورت قبول کیاجاسکتاہے مگر جب نوبت دین پر دست درازی کے ارادوں کو دھار دینے تک پہنچ جائے اور اس کے لئے آئین کا پلو تھاماجائے تو پھر سوچنے سمجھنے کے لئے کیا باقی رہ جاتا ہے۔ مسلم پرسنل لا پر ہاتھ ڈالنے کی کہانی نئی نہیں ہے یہ خدمات جلیلہ تو کانگریس کے نرم ہاتھ بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ بی جے پی تو کانگریس کے نقش قدم پر ہی چل رہی ہے ۔ ہماری کمزوریاں ،نادانیاں اپنی جگہ مگر کانگریس مسائل کی جننی ہے اس سے وہ لوگ بھی انکارنہیں کرسکتے جن کی رگوں میں پیدائشی کانگریسی خون دوڑ رہا ہے ۔
دوسری طرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر تلوار لٹکادی گئی ،رام مندر کی تعمیر کے لئے میدان ہموار کرنا شروع کردیا گیا ،بڑے یقین واعتماد کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ بہت جلد تمام قانونی رکاوٹیں دور کرلی جائیں گی اور تعمیر کاآغاز ہوجائے گا۔ مسلکی اختلافات کو ہونے دینے ،ہندوووٹوں کو متحد کرنے اور مسلمانوں کو بانٹنے کی بات کھلم کھلا کی جارہی ہے۔
وزیراعظم مودی سرجیکل اسٹرائک کا موازنہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائی سے کرتے ہیں یعنی جو کام اسرائیل غزہ میں کرتا ہے وہ ہم نے مقبوضہ کشمیر میں کردکھایا۔ اس بیان میں کتنے معانی پوشیدہ ہیں وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان دشمنی کا بخار حب الوطنی کے تیز انجکشنوں سے بڑھایا جارہا ہے اس کا بالواسطہ مقصد پوشیدہ نہیں ہے۔ بات بات پر پاکستان روانگی کی دھمکیاں ۔ دیش بھکتی کے بدلتے پیمانے،وہاٹس اپ پر متنازع پوسٹ ڈالنے پر منہاج انصاری کی پولیس حراست میں مار مار کر گردن کی ہڈی توڑ دینا اور پھر اس کی دردناک موت ،نجیب کی جے این یو میں پراسرار گمشدگی اس سے پہلے مارپیٹ ، کس طرف اشارہ کرتے ہیں اور ملک کو کدھر لے جارہے ہیں ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز کو انتہائی خاموشی کے ساتھ دھیرے دھیرے خانہ جنگی کی گود میں دھکیلا جارہا ہے وہیں فوج کو مقدس گائے بناکر آگے بڑھایاجارہا ہے ۔ ہرمخالف آواز کو دبادینا چاہتے ہیں جب سوچ پر پہرے بیٹھا دیے جائیں اور اختلافات کو تہذیب کے دائرے میں مقید کرنے کی بجائے کچل دیاجائے تو اس رویہ کے انڈے سے فسطائیت کا ڈائناسورپیداہوتا ہے۔ سائرہ بانو کیس کی آڑ میں جس طرح کاماحول تخلیق کیاجارہا ہے اور بڑی چالاکی کے ساتھ مسلمانوں کو آئین اور عدالت کے ساتھ ٹکرائو کی حالت میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے اس کا تمام تر فائدہ وہ طاقتیں اٹھانا چاہیں گی جو مسلمانوںکو مظلوم کی بجائے ظالم ثابت کرنے پر تلی ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے جلسے جلوسوں، مظاہروں دھرنوں سے گریز کرنے کا مشورہ دے کر سردست وقوع پذیر ہونے والی اس کشیدگی سے بچالیا جو فسطائی طاقتیں چاہتی ہیں ، ان کی چال ناکام بنادی شورشرابہ ہیجانی سیاست ،گرماگرم تقریر یںمسائل پیداکرتی ہیں، آگ کو بجھانے کی بجائے بھڑکاتی ہیں۔ مسلم جماعتوں کا یہ حکمت بھرا اقدام ان سیاسی طالع آزمائوں کی امیدوں پر اسکائی لیپ بن کر گرا جو اس بہانے آگے تک کاسفر شارٹ کٹ کے ذریعہ طے کرنا چاہتے تھے جومسلمانوں کو سڑکوں پر اتارکر ہنگامہ آرائی کا طوفان پیدا کرکے نشان زد ہدف تک پہنچنے کے لئے بے قرار ہیں۔
ہمیں اس پہلو پر ہرحالت میں غورکرناہوگا کہ ملک جن خطرات کی طرف بڑھ رہا ہے وہ در اصل کیا ہے اور ان سے نمٹنے کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔سوال اب صرف مذہبی آزادی کانہیں ہے آزادی رائے کا ہے جس پر غداری کاجامہ پہنادیاگیا ہے۔ ماضی سے بے خبر تاریخ سے ناآشنا اور حکمت وتدبر کے شعور کو پائے حقارت سے ٹھکرانے والے طوفانوں کی آستینوں میں پوشیدہ بجلیوں کے بارے میں کتنے حساس ہیں کہنامشکل ہے ۔ اعتدال پسند طبقہ جنگ ہارتا نظر آنے لگا ہے۔ آج اگر سرجیکل اسٹرائیکل پرسوال اٹھانااورپاکستانی فنکاروں کی وکالت کرنا غداری ہے تو کل اخلاق کے قتل کے خلاف آواز اٹھانا،روہت ویمولا کی خودکشی پر احتجاج منہاج الدین انصاری کی پولیس حراست میں سفاکانہ موت کی مذمت،گائے کی آڑ میں دلتوں کی بے رحمانہ پٹائی پر اظہار ناراضگی بھی غداری کے زمرے میں آسکتی ہے ۔ اگر کیرل کے ایک مسلم اسکول کے خلاف اس لئے مقدمہ درج کیاگیا کہ اس کے نصاب میں ایسی کتابیں داخل ہیں جن میں اسلام پر جان نچھاور کرنے کی تعلیم دی جارہی تھی اور یہ قابل دست اندازی پولیس ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تفتیش کادائرہ کہاں تک بڑھ سکتا ہے۔ پھر فقہ کی کتابوں میں باب الجہاد ہونے پر اعتراض ہوگا۔ اسلامی غزوات کامطالعہ تاریخی ودینی کتابوں میں کافر جیسے الفاظ کی موجودگی پرسوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ اس سے فرقہ وارانہ منافرت اور دہشت گردی پر اکسانے کاالزام لگادیاجائے تو حیرت نہیںہوگی۔ مشتعل بھیڑ انصاف کرنے کی حمایت ،گئورکشکوںکو تحفظ فراہمی کامطالبہ ،اقلیتوں پر ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی حب الوطنی پر شبہ ،حکومت کی مخالفت کو غداری سے تعبیرکرنا، آئینی اداروںکی بے وقعتی کی حوصلہ افزائی ،دادری قتل کے ملزم کو شہیدکادرجہ،سرکار کی طرف سے 25لاکھ کامعاوضہ اور اس کی لاش پر قومی جھنڈے کی موجودگی اس پر مجرمانہ خاموشی سیکولر قوتوں کی منافقت یاپسپائی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ ایسا ماحول جہاں بھیڑپیروںسے کچل دے یاقتل کردے ،لکھتے ہوئے بھی ڈرلگنے لگے، بولتے ہوئے سوچناپڑے۔ملک اسی سمت بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ تصور کیاجاسکتا ہے کہ جہاں آزادی رائے کو بھی برداشت نہ کرنے کا ماحول تخلیق کیاجارہا ہو وہ دوسروں کی مذہبی آزادی کیسے برداشت کرسکتا ہے ۔ ان ایٹمی ذراسابھرےحالات سے نمٹنے کے لئے موثرہمہ پہلو ،تدبروحکمت سے بھرپور لائحہ عمل بناناہوگا ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصہ دکھاناہوگا ورنہ ذاتی مسلکی گروہی اورجماعتی عصبیتیں لےڈوبیں گی اورکوئی اظہارتعزیت بھی نہیں کرے گا ابھی مہلت عمل باقی ہے۔(ملت ٹائمز)
qasimsyed2008@gmail.com