دہلی فساد معاملہ: دہلی پولیس اسمبلی کمیٹی کو  ایف آئی آر دینے کو تیار نہیں

متاثرین تک نہیں ہوئی معاوضہ کی صحیح تقسیم، کمیٹی کو دی گئی ہیں اب تک پانچ ایف آئی آر، میٹنگ کے دوران تین متاثرین نے سنائی اپنی آپ بیتی، میٹنگ میں فساد کرنے والوں کی چلائی گئیں ویڈیو، امانت اللہ خان نے پوچھا کیا کارروائی ہوئی؟ اگلی میٹنگ 7اکتوبر کو

نئی دہلی: (ملت ٹائمز) دہلی کے شمال مشرقی علاقہ میں سال کے شروع میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں متاثرین کو حکومت کی جانب سے معاوضہ ملنے کے سلسلہ میں آج دہلی اسمبلی کی اقلیتی فلاحی کمیٹی کی ایک بار پھر میٹنگ منعقد کی گئی۔ آج ہونے والی میٹنگ میں شمال مشرقی دہلی کے تینوں ایس ڈی ایم، شاہدرہ کے ایس ڈی ایم، شاہدرہ اور نارتھ ایسٹ کے ضلع مجسٹریٹ، پرنسپل ہوم سکریٹری، ڈویزنل کمشنر محکمہ روینیو و دیگر متعلقہ افسران کو طلب کیا گیا تھاجن سے کمیٹی کے چیئرمین امانت اللہ خان و دیگر ممبران نے فساد متاثرین کو مہیا کرائے گئے معاوضہ کے بارے میں سوالات کئے اور متاثرین کو حکومت کی جانب سے اب تک ملنے والے معاوضہ کی بابت معلومات دریافت کی گئیں۔ اقلیتی فلاحی کمیٹی کی آج ہونے والی میٹنگ میں چیئرمین امانت اللہ خان کے علاوہ مصطفی آباد سے رکن اسمبلی حاجی یونس، سیلم پور سے رکن اسمبلی عبد الرحمن، رکن اسمبلی جرنیل سنگھ،دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ذاکر خان، دہلی وقف بورڈ کے سیکشن آفیسر محفوظ محمد کے علاوہ دیگر افسران نے شرکت کی۔ میٹنگ میں پرنسپل ہوم سیکریٹری سے دریافت کیا گیا کہ پولیس کمیٹی کو ایف آئی آر مہیا کیوں نہیں کرارہی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایف آئی آر پبلک ڈومین میں ہونی چاہییں پھر پولیس سپریم کورٹ کی حکم عدولی کیوں کر رہی ہے؟ چیئرمین امانت اللہ خان نے اس سلسلہ میں ہوم سیکریٹری کو ہدایت دیتے ہوئے کہاکہ پولیس سے اس سلسلہ میں وضاحت طلب کی جائے۔ اس کے علاوہ کمیٹی کے سامنے ایسی پانچ ایف آر بھی پیش کی گئیں جن کا مضمون ایک جیسا ہے اور پانچوں ایف آئی آر میں ایک ہی طرح کی کہانی بناکر پولیس نے مخصوص طبقہ کے افراد کے خلاف کیس بنادیا ہے۔ اس سلسلہ میں بھی افسران کو تحقیق کرنے اور پولیس سے وضاحت طلب کرنے کی ہدایت دی گئی۔ متاثرین کو ملنے والے معاوضہ کے سلسلہ میں بھی افسران سے معلومات اور تفصیل طلب کی گئیں جس میں کئی چونکانے والے حقائق سامنے آئے۔ تفصیل کے مطابق متاثرین کے کیسوں کی باریکی سے چھان بین سے یہ روشنی میں آیا کہ متاثرین تک معاوضہ کی صحیح تقسیم نہیں ہوپائی ہے۔کمیٹی کے سامنے پینل پر کئی ایسے کیس رکھے گئے جن میں متاثرین کا نقصان 8/10لاکھ کا ہوا ہے لیکن انھیں معاوضہ کے نام پر 25/ 30 ہزار روپئے دیدئے گئے ہیں جبکہ ایک کیس ایسا بھی سامنے آیا جس میں نقصان 90ہزار کا ہے جبکہ معاوضہ 8 لاکھ دیدیا گیا۔ چیئرمین امانت اللہ خان نے اس سلسلہ میں افسران کو ایسے کیسوں کی باریکی سے تحقیقات کرنے کی ہدایت دی۔ اس کے علاوہ آج میٹنگ کے دوران افسران کے سامنے چیئرمین امانت اللہ خان کی ہدایت پر کئی ایسے ویڈیو چلائے گئے جن میں فسادیوں کے نہ صرف چہرے صاف نظر آرہے ہیں بلکہ وہ اپنا اقبال جرم کرتے ہوئے بھی سنے جاسکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ویڈیو فیضان نامی شخص کا چلایا گیا جس میں پولیس والے فیضان کو نہ صرف بری طرح سے پیٹ رہے ہیں بلکہ ان کے چہرے بھی صاف نظر آرہے ہیں غور طلب ہے کہ بعد میں فیضان کی موت واقع ہوگئی تھی۔چیئرمین امانت اللہ خان نے ایسے واقعات کے بارے میں پرنسپل ہوم سیکریٹری سے دریافت کیا کہ ان لوگوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟

آج میٹنگ کے دوران کمیٹی کے سامنے تین ایسے فساد متاثرین کو پیش کیا گیا جن کی پولیس نے آج تک ایف آئی آر نہیں کی جن میں سے ایک ماں بیٹی ہیں جن کے گھر میں لوٹ کی واردات ہوگئی تھی مگر ان کی ایف آئی آر مختلف وجوہات بتاکر آج تک نہیں لکھی گئی اور ان کی ذہنی حالت بگڑتی جارہی ہے اور وہ خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ آج بھی ماحول کو خراب کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور بے جا نعرہ بازی اور فقرہ کشی ہوتی ہے۔ جبکہ ایک محمد اشفاق نامی شخص کے بھائی کی فساد میں موت ہوگئی تھی جس کی لاش کئی روز بعد پولیس نے حوالے کی مگر نہ ہی اس کی ایف آئی آر کی گئی اور نہ ہی اسے ابھی تک معاوضہ ملا۔ متاثرین کمیٹی کے سامنے اپنی آپ بیتی سنائی جس پر امانت اللہ خان نے فوراً کارروائی کی ہدایت دی۔ امانت اللہ خان نے یہ چبھتا ہوا سوال بھی افسران سے کیاکہ اگر کسی کی غیر فطری موت ہوئی ہے تو ایف آئی آر اس کی بھی ہوتی ہے پھر اس سکندر نامی شخص کی ایف آئی آر کیوں پولیس نے درج نہیں کی جس کی فساد کے دوران مشتبہ حالت میں لاش ملی اور میڈیکل رپورٹ میں اسے بری طرح زدوکوب کئے جانے کا ذکر ہے؟ چیئرمین امانت اللہ خان نے تینوں متاثرین کے کیس کا معائنہ کرنے اور کارروائی کرنے کے احکامات دیئے۔گزشتہ میٹنگ کے دوران کمیٹی کے علم میں ایسے 15کیس لائے گئے تھے جن کی ایف آئی آر پینڈنگ تھی چیئرمین امانت اللہ خان نے ایسے سبھی 15کیسوں کے بارے میں پرنسپل سیکریٹری ہوم کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھاکہ آپ ان کیسوں کی ایف آئی آر کو یقینی بنائیں ساتھ ہی سیلم پور سے رکن اسمبلی اور کمیٹی کے ممبر عبد الرحمن کو ایسے تمام متاثرین سے ملاقات کرنے اور صحیح معلومات مہیا کرانے کی ہدایت دی تھی۔ آج میٹنگ کے دوران کمیٹی کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ 12کیسوں میں ایف آئی درج کرلی گئی ہے جبکہ کل 3کیس باقی ہیں۔غور طلب ہے کہ دہلی اسمبلی کی اقلیتی فلاحی کمیٹی نے گزشتہ میٹنگ میں افسران سے دہلی فسادات سے متعلق تمام ایف آئی آر مہیا کرانے کے لئے کہا تھا مگر پولیس نے ابھی تک کمیٹی کو ایف آئی آر مہیا نہیں کرائی ہیں۔ چیئرمین امانت اللہ خان نے کہاکہ ہم نے پرنسپل سیکریٹری ہوم کے توسط سے ایف آئی آر طلب کی ہیں مگر پولیس ایف آئی آر کی کاپیاں مہیا کرانے میں آنا کانی سے کام لے رہی ہے۔ امانت اللہ خان نے کہاکہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ایف آئی آر پبلک ڈومین ہونی چاہییں مگر پولیس کس راز کے افشاء کے خوف سے ایف آر نہیں دینا چاہتی یہ آج نہیں توکل سب کے سامنے آجائے گا اس لئے پولیس سے اس بات کی وضاحت طلب کی جائے کہ وہ عدالت عظمیٰ کی حکم عدولی کیوں کرہی ہے؟