معصوم مرادآبادی
ہندوستانی مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے کے لئے سنگھ پریوار نے جو جال بچھا رکھا ہے، اس میں کئی قسم کے عناصر سرگرم ہیں۔زندگی کے مختلف میدانوں میں کام کرنے والے ان لوگوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو بدنام کیا جائے اور انھیں اس ملک میں حرف غلط ثابت کرکے مٹانے کی کوشش کی جائے۔اس کا م میں گزشتہ کافی عرصے سے میڈیا کلیدی رول ادا کررہا ہے۔اس کا سب سے گھناؤنا چہرہ گزشتہ دنوں اس وقت سامنے آیا تھا جب میڈیا نے کورونا پھیلانے کا الزام مسلمانوں پر ڈالا تھا۔ ہر قسم کی جواب دہی سے آزاد اس میڈیا کو حکمراں طبقے کی پوری مدد اور حمایت حاصل ہے۔ یوں تو اس کام میں ہرقسم کا میڈیا لگا ہوا ہے، لیکن نیوز چینلوں کا کردار اس معاملے میں سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ حالانکہ بعض چینل ایسے بھی ہیں جو حقائق کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں اور ہر قسم کے خطرات مول لے کر سچائی کو منظر عام پر لاتے ہیں، لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کا غالب حصہ مسلمانوں کے خلاف منافرانہ پروپیگنڈے میں شب و روز مصروف ہے۔ اسی کو عرف عام میں ” گودی میڈیا “ بھی کہا جاتا ہے۔
ان ہی چینلوں کی بھیڑ میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ’آرگنائزر‘ اور پنج جنیہ‘ جیسے اخباروں کے کردار میں نظر آتے ہیں اور ان کامقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاکر اپنے پیروکاروں کو تشدد پر آمادہ کرنا ہے۔ ان ہی چینلوں میں فرقہ پرستوں کا دلارا ’سدرشن چینل‘ بھی ہے جو عرصہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا منافع بخش کاروبار کررہا ہے۔ منافع بخش اس لئے کہ جو کوئی یہ کام کرتا ہے، اسے حکمراں طبقہ خاص طور پر نوازتا ہے اور جب کبھی اس کی گرفت ہوتی ہے تو سرکاری مشینری اس کے دفاع میں آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ اسی سدرشن چینل نے پچھلے دنوں مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کی شبیہ داغدار کرنے والا ایک ایسا خطرناک پروگرام تیار کیا جس نے مسلم دشمنی کی تمام حدیں پار کرلیں۔ یہ پروگرام تھا سول سروسز میں مسلمانوں کی ”گھس پیٹھ“ سے متعلق۔ جیسے ہی اس پروگرام کا پرومو منظر عام پر آیاتو مسلم حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، کیونکہ اس کا لب ولہجہ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسا تھا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک کی سول سروسز میں ”گھس پیٹھ“ کرنے کی ایک خطرناک سازش تیار کی ہے اور وہ اس سازش کو بھی ایک جہاد کے طور پر انجام دے رہے ہیں۔
’جہاد‘ دراصل ایک ایسا لفظ ہے جسے سنگھ پریوار کے لوگ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس پروگرام کو ’یو پی ایس سی جہاد‘ کا نام دیا گیا اور اس میں یہ بتایا گیا کہ جامعہ کے ’جہادی‘ سول سروسز میں گھس پیٹھ کرکے اس ملک کے نظام پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ سدرشن چینل نے سوال اٹھایا کہ ”کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ جہادی آپ کے ضلع کے کلکٹر اور سرکاری دفتروں میں سیکریٹری بنیں۔“ اس پروگرام کے پس منظر میں سول سروسزکے حالیہ امتحانات میں مسلمانوں کی نمائندگی کا سوال تھا اور اس میں یہ بتایا گیا کہ جامعہ کے تیس طلباء نے اس مرتبہ یو پی ایس سی کا امتحان پاس کیا ہے جو کہ ملک کی سلامتی کے اعتبار سے ایک خطرناک بات ہے، کیونکہ یہ طلباء’جہادی‘ ذہنیت کے ہوتے ہیں۔ نفرت پھیلانے کے جوش میں اس حقیقت کو قطعی فراموش کردیا گیا کہ اس سال جامعہ کے جن تیس طلباء نے پوپی ایس سی کے امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے ان میں 14ہندو ہیں۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ جامعہ میں غیر مسلم طلباء کثیر تعداد میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور یہاں کے بعض اہم شعبوں میں تو غیر مسلموں کی تعداد 90 فیصد سے زیادہ ہے۔ جامعہ کا باوقار ماس کمیونیکشن کاشعبہ اس کی ایک مثال ہے۔ جامعہ کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسے جن قوم پرست لیڈروں نے قائم کیا تھا، ان میں گاندھی جی بھی شامل تھے۔ جامعہ اس سال اپنی تاسیس کی صدی تقریبات منارہا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب سدرشن ٹی وی کے اس پروگرام پر جامعہ کے ہی بعض سابق طلباء کی عرضی پر دہلی ہائی کورٹ نے روک لگائی اور مرکزی حکومت سے اس کا موقف معلوم کیا تواس نے اسے اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کے سوال سے جوڑنے کی کوشش کی۔ بعد کو وزارت اطلاعات ونشریات نے اس پروگرام پر پابندی ہٹانے کا بھی اعلان کیا۔ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا اور اس نے سدرشن ٹی وی کی شرانگیزی کے بارے میں سخت موقف اختیار کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا تو سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے عدالت میں یہ دلیل دی کہ ”صحافیوں کی آزادی مقدم ہے اور پریس کو کنٹرول کرنا کسی بھی جمہوری نظام کے لئے مہلک ہوگا۔“ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ اسی مرکزی سرکار کا موقف تھا جو اپنی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتی رہی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ فروری میں شمال مشرقی دہلی کے فساد کی حقیقت پسندانہ رپورٹنگ کرنے والے جنوبی ہند کے دو ٹی وی چینلوں کی نشریات پر اسی حکومت نے 48 گھنٹے کی پابندی لگائی گئی تھی۔ اتنا ہی نہیں کورونا سے متعلق رپورٹنگ کے معاملے میں بعض صحافیوں پر ’فیک نیوز‘ پھیلانے کے الزام میں غداری کے الزامات کے تحت کارروائیاں کی گئی ہیں اور انھیں جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔ پچھلے ہفتہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن بی لوکر نے ”اظہارِ رائے کی آزادی اور عدلیہ“ کے موضوع پر ایک ویبینار میں مودی سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا ”وہ آہنی ہاتھوں سے ملک کے غداری قانون کو لوگوں کی آزادانہ رائے کو دبانے کی کوشش کررہی ہے۔“ انھوں نے کہا کہ ”اظہارِ رائے کی آزادی کو دبانے کے لئے حکومت کی جانب سے جو دوسرا حربہ استعمال کیا جارہا ہے، وہ یہ ہے کہ تنقید کرنے والوں پر فیک نیوز پھیلانے کا الزام عائد کردیا جاتا ہے۔“ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طرف تو حکومت سپریم کورٹ میں سدرشن ٹی وی کے خلاف کارروائی کی مخالفت اس بنیاد پر کرتی ہے کہ پریس کو کنٹرول کرنا جمہوری نظام کے لئے مہلک ہوگا اور دوسری طرف وہ ’فیک نیوز‘ کے نام پر صحافیوں کو غداری قانون کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال رہی ہے۔ جہاں تک فیک نیوز کا سوال ہے تو اس معاملے میں سدرشن ٹی وی کا کوئی مقابلہ ہی نہیں کرسکتا۔
اب آئیے سپریم کورٹ کے ان ریمارکس کی طرف جو اس نے سدرشن ٹی وی کے باقی پانچ ایپی سوڈ پر پابندی کا حکم جاری کرتے ہوئے دئیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ”ایسا لگتا ہے کہ اس پروگرام کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو داغدار کرنے کا ہے۔ ایک مضبوط جمہوری سماج کی عمارت اور حقوق و فرائض کی مشروط پیروی، فرقوں کے بقائے باہم پر مبنی ہے۔ کسی بھی فرقہ کو داغدار کرنے کی کسی بھی کوشش سے نپٹا جانا چاہئے۔“ سپریم کورٹ کی اس بنچ میں شامل تین ججوں جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس اندو ملہوترا اور جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ ”ملک کی سب سے بڑی عدالت کے طور پر آپ کو یہ کہنے کی اجازت نہیں دے سکتے کہ مسلم شہری نوکریوں میں گھس پیٹھ کررہے ہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ صحافیوں کو یہ کہنے کی پوری آزادی ہے۔ سدرشن ٹی وی کے وکیل شیام دیوان نے جب بنچ کو بتایا کہ وہ اس تحقیقاتی خبر کو قومی مفاد میں سمجھتا ہے تو اس پرعدالت نے کہا کہ ” آپ کا موکل ملک کو نقصان پہنچارہا ہے اور یہ قبول نہیں کررہا ہے کہ ہندوستان ایک متنوع ثقافت وتہذیب والا ملک ہے۔آپ کے موکل کو اپنی آزادی کے حق کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہئے۔“






